لاہور (ویب ڈیسک) رضوی دھرنے کے پاکستانی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے تھے کہ اس سے پہلے کسی کو اس حساس مقام پر قابض ہو کر مطالبات منوانے کی نہیں سوجھی تھی۔ حضرت علامہ کی اس غیر معمولی سوجھ بوجھ، نے ان کی دھاک بٹھا دی تھی۔ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ ان
کی جیب میں تھا،نامور کالم نگار مجیب الرحمان شامی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ زبان پر تھا، وہ آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔مسلم لیگ(ن) کے بہت سے رہنما دہائی دیتے رہ گئے لیکن نقار خانے میں یہ طوطی کی آواز تھی جسے کوئی سننے پر تیار نہیں تھا۔منکرین ختم نبوت کو فائدہ پہنچانے کی تہمت سے بچتے بچاتے زاہد حامد وزارت سے تو نکلے ہی تھے،کوچہ ئ سیاست سے بھی نکل گئے۔اور تو اور احسن اقبال جیسے راسخ العقیدہ پر بھی دھاوا بول دیا گیا، اللہ نے اُنہیں بچا لیا کہ زندگی اور موت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی الفاظ کا جادو جگا سکتے تھے، اور اس کا توڑ بھی کر سکتے تھے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جماعت کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرایا، اور تحریک لبیک کے نام سے میدان میں آ گئے۔ غیر رجسٹرڈ تنظیم کا نام لبیک یا رسول اللہ تھا، جب اس کے پرچم تلے پُرجوش پروانے نعرہ زن ہوتے تو سماں باندھ دیتے۔دِلوں کو گرماتے، اور روح کو تڑپا دیتے۔ لبیک پاکستان نے لاکھوں ووٹ حاصل کر لیے، نشستیں تو ایک یا دو ہی ملیں، لیکن مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بنک میں شگاف ڈال دیا۔ بڑی بڑی سکہ بند مذہبی جماعتیں جو اپنے نظم اور سلیقے کے حوالے سے معروف اور ممتاز تھیں، ووٹوں کی گنتی میں پیچھے رہ گئیں۔علامہ رضوی کا پہلا دھرنا کامیاب رہا، اور دوسرا دھرنا بھی کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو تحریری معاہدہ کرکے جان بچانا پڑی۔
قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو دیس نکالنے دینے کا معاملہ پیش کرنے کا وعدہ کرکے اسلام آباد کا محاصرہ ختم کرایا۔ یہ دھرنا البتہ یوں مہنگا پڑا کہ علامہ رضوی کی طبیعت سنبھل نہیں سکی۔ ان کے حلقہ بگوش اُنہیں بحفاظت واپس تو لے آئے لیکن انہوں نے بروقت ڈاکٹروں تک رسائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔کہا جاتا ہے کہ بخار میں تو مبتلا تھے ہی، دِل بھی اس معرکے میں کام آ گیا۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ ان پر کورونا کا اٹیک ہوا تھا، پشاور ہائی کورٹ کے اولوالعزم چیف جسٹس وقار سیٹھ کی طرح، وہ بھی اسی کی نذر ہو گئے۔ان کے حلقہ بگوشوں نے جب بے بسی محسوس کی،اور بدھ کی شب پونے نو بجے انہیں شیخ زید ہسپتال لے کر پہنچے تو ان کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔یہ خبر عام ہوئی تو علامہ رضوی سے اختلاف کرنے والے بھی افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ خادم حسین رضوی ممتاز قادری والے کیس میں ہیرو بن کر ابھرے اور ممتاز قادری کا بھرپور دفاع کیا۔وہ انہیں تختہ دار سے بچانا چاہتے تھے، جبکہ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اپنے دلائل رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک کوئی رو رعایت کاروبارِ مملکت کی ابتری کا سبب بن سکتی تھی۔ ممتاز قادری کو تو سزادے دی گئی لیکن وزیراعظم نوازشریف کے حامی مذہبی حلقے کا ایک بڑا حصہ ان سے ناراض ہو گیا۔ ممتاز قادری کے لہو سے ہی سے علامہ خادم حسین رضوی کی شہرت کا چراغ جلا اور وہ قومی منظر پر
چھاتے چلے گئے۔علامہ خادم حسین رضوی کو جس جوش و خروش سے الوداع کیا گیا اور ان کی نمازِ جنازہ میں جس بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اسے بھلایا نہیں جا سکے گا۔یہ لاہور کی تاریخ کے بہت بڑے جنازوں میں سے تھا۔وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں، لیکن ان کے اثرات تادیر قائم رہیں گے۔ ان کی وفات کے فوراً بعد ان کے مداحوں کے ایک حلقے نے یہ خبر اڑا دی تھی کہ انہوں نے آنکھیں کھول لی ہیں، وہ محض بے ہوش ہوئے تھے، ان کے بارے میں ڈاکٹروں کی رائے غلط نکلی، ان کی سانس بحال ہو گئی ہے۔کچھ دیر کے لیے یہ سنسنی خیز رپورٹ لوگوں کو حیران کرتی رہی، ان کی موت کی طرح ان کی نئی زندگی کی خبر بھی حیران کن تھی لیکن افسوس یہ سچی ثابت نہ ہوئی۔ان کے ورثا کی طرف سے باقاعدہ اعلان جاری ہوا کہ وہ اِس دُنیائے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔گریٹر اقبال پارک میں دور دور سے آنے والے ان کے مداحوں اور پروانوں نے اُنہیں بھیگی آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے رخصت کیا۔وہ منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں،لیکن ان کا اسلوبِ سیاست زیر بحث رہے گا۔ پی ڈی ایم کا گیارہ جماعتی اتحاد اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ تجویز بھی زیر بحث ہے کہ وہاں دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوائے جائیں،خود کو منوانے کی ”رضوی ٹیکنالوجی“ان کے من کو بھی بھا رہی ہے،
Credits HassanNisar.pk