امریکا سے فون آنے سے پہلے عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے‘ہماری جماعت کو پنجاب میں بہت بڑا دھچکا لگا ، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی.مشاہدحسین سید

8
امریکا سے فون آنے سے پہلے عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے‘ہماری جماعت کو پنجاب میں بہت بڑا دھچکا لگا ، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی.مشاہدحسین سید


اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مئی۔2024 ) مسلم لیگ (ن) کے سینیئر راہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں‘ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں، اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے، جبکہ دوسری طرف عوامی قوت ہے، جس کی بنیاد فارم 45 ہے اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے.

()

عرب جریدے سے انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کے راہنما نے بتایا کہ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی، اگر آپ اپنے گڑھ میں اپنے گھر میں ہار جائیں اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں، گمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے مشاہد حسین سید نے کہاکہ اگر آپ لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے، آئین کی پاسداری نہیں کریں گے اور ماضی غلطیاں دہرائیں گے تو معاملہ گڑ بڑ ہوگا. انہوں نے کہا کہ میں نے تو کہا ہے کہ دست شفا کی ضرورت ہے، دست شفا میں تمام سیاست دان، سیاسی جماعتیں سب شامل ہیں انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت کرنے کو تیار ہیں، نریندر مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں، را کے بندوں نے آ کر چار سالوں میں 20 دفعہ ہمارے بندے مارے ہیں دہشت گردی کی ہے مشاہد حسین سید نے کہا کہ دوسری طرف ہمارے جنرل کابل میں جا کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرت کرتے ہیں، تو ہم دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتے ہیں، تو اپنے لوگوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے، خاص طور پر جس کا مینڈیٹ ہے. انہوں نے کہا کہ عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، اس سے پہلے کہ کوئی ٹیلی فون کال آئے، 5 نومبر کو امریکا میں الیکشن ہے، اگر ٹرمپ جیت جائے اور پھر وہاں سے کال آئے، تو اس سے پہلے آپ فیصلہ کریں، اس میں مسئلہ کسی شخص یا جماعت کا نہیں ہے، ایشو پاکستان کا ہے. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت جماعتیں میٹرز نہیں کرتیں، اس وقت پاکستان کی بقا، پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری استحکام کا ایشو ہے انہوں نے کہا کہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، وہ فارم 47 کے چھتری تلے سرکاری سسٹم میں آ گئی ہیں، اور باقی دوسری طرف ہیں، ہم نے پل کا کردار ادا کرنا ہے، ہم نے ہیلنگ ٹچ دینا ہے. میاں نوازشریف سے مشاور کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں اپنی رائے دے چکا ہوں، جب سب کہہ رہے تھے کہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے، اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ اس کا چانس نہیں ہے، اگر سسٹم میں آنا ہے صدر بن سکتے ہیں، وزیر اعظم بننے کا چانس نہیں ہے، لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوئے تھے، وہی بات صحیح ثابت ہوئی مشاہد حسین سید نے کہا کہ الیکشن سے پہلے بلا نہ دینے کا فیصلہ غلط ہوا تھا، اب کیا فائدہ ہوا، سپریم کورٹ نے بھی وہ فیصلے معطل کردیے. انہوں نے کہا کہ مذاق بن گیا ہے کہ فارم 45 کیا ہے اور فارم 47 کیا، ماضی کے نگران وزیر اعظم حکمران جماعت کو طعنہ دے رہے ہیں کہ چپ ہو جاﺅ ورنہ میں تمہاری اصلیت بتا دوں گا کہ تم فارم 47 کی پیداوار ہو انہوں نے کہا کہ یعنی آپ کا مینڈیٹ جعلی ہے، اگر ہمارے اپنے لوگ اصلیت جانتے ہیں تو باہر کے لوگ نہیں جانیں گے اگر آپ کی عزت نہیں ہے تو کیا رہ گیا انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں کہ جس راستے سے آپ آئے ہیں، اسی راستے سے جا بھی سکتے ہیں.



Source link

Credits Urdu Points