موسمیاتی تبدیلی کا حل شادی نہ کرنے میں پنہاں ہیں

136


واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 نومبر2020ء)   پچھلے کافی عرصہ سے دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ ایک بڑا ایشو بنا ہو اہے کہ گزشتہ برس یو این او کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی سب سے اہم موضوع یہی رہاہے۔دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی کے ساتھ ساتھ درخت اگانے ا ور دیگر کئی کام کرنے پر زور دیا جا رہاہے تاکہ درجہ حرارت کنٹرول میں آئے اور دنیا میں سکون اور سکھ کا سانس لیا جا سکے۔تاہم پچھلے دنوں دنیا میں بڑھتی گلوبل وارمنگ کے حوالے سے سروے کیا گیا جس کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔کلائی میٹ چینج جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آج کے نوجوان پریشان ہیں کہ ان کے بچے اس قسم کے گلوبل وارمنگ کی دنیا میں سانس لیں گے تو انہیں کتنی گھٹن محسوس ہو گی۔

()

لہٰذا انہوں نے فیصلہ کررکھا ہے کہ نہ شادی کریں گے اور نہ بچے ہوں گے تاکہ اس گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچے رہیں۔

جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ تو پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے شادی کی ہی کیوں اور اگر شادی کی تو بچے کیوں پیدا کیے کیونکہ یہ بچے اب آلودہ فضائی ماحول میں سانس لے رہے ہیں جو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔کچھ نوجوانوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ کہیں ان کی طرح ان کے بچے اس دنیا آکر گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث نہ بنیں۔تحقیق کے لیے کیے جانے والے سروے میں امریکہ کے 607افراد سے یہ سوال کیا گیا جن کی عمریں27برس سے45برس کے درمیان تھیں۔اس کے مطابق 59.8لوگوں نے کہا کہ وہ کاربن فٹ پرنٹ سے متعلق پریشان ہیں جبکہ 96.5لوگوں نے کہا وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ان کے بچے فضائی گلوبل وارمنگ جیسے ماحول میں سانس لیتے ہیں اور اس سب میں وہ خود بھی ملوث ہیں۔یاد رہے کہ دنیا بھر میں لگنے والی جنگلوں کی آگ اور اس کے علاوہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور نیوکلیئر ہتھیاروںکی دوڑ یہ سب مل کر دنیا کو گلوبل وارمنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک گلوبل وارمنگ پر بھی شور مچا رہے اور گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بھی سب سے آگے ہیں۔تاہم اب گلوبل وارمنگ سے بچنے کا علاج یہ بتایا جا رہا ہے کہ نہ توآپ شادی کریں اور نہ آپ کے بچے ہوں اور نہ ہی دنیا میں گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو گا۔



Source link

Credits Urdu Points