()
جن بچوں پر یہ الزام لگایا گیا ان میں سے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے اور اس معصوم لڑکی کی عمر بھی دس سال ہی ہے۔پانچویں کلاس میں پڑھنے والے 14بچوں کے گھر پر اسی طرح کے چھاپے مارے گئے اور انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔انتظامیہ کی طرف سے مسلم خاندانوں کو بغیر اجازت گھر سے نکلنے اور کہیں آنے جانے سے بھی منع کر دیا ہے یہاں تک کہ وہ اگر کہیں جائیں گے تو پولیس کو انفارم کر کے ہی جائیں گے۔مساجد اور دوسری جگہوں پر بھی مسلمانوں کے اجتماعات کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ مسلمان بچوں کو نشان لگا کر رکھنے کے علاوہ بھی کئی قوانین لاگو کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔پولیس نے بچوں سمیت والدین کو بھی تھانے بلا لیا ہے جہاں پر ان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ تو فرانسیسیوں کا ایسا سلوک روا رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے تاہم اب انہو ں نے اپنی عوام کے ساتھ بھی زیادتی کرنا شروع کر دی ہے کہ وہ کالا قانون جس پر پورے فرانس میں احتجاجی مظاہرے ہونے کے ساتھ ساتھ دنگے فساد بھی ہوئے تھے عوام اختلاف کے باوجود وہ قانون پاس کر کے ملک میں لاگو کر دیا گیا ہے۔لہٰذ ااب اس قانون کے مطابق کوئی بھی اخبار یا فلم اور کسی قسم کے بینر پر پولیس اہلکاروں کی تصویر نہیں لگایا جائے گی۔
Credits Urdu Points