()
حکومت کی جانب سے ابھی سوائے پکڑ دھکڑ کے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔توقع یہ ہے کہ لانگ مارچ سے قبل ہر صورت مذاکرات ہوں گے۔ بہتر تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن بغیر کسی دباؤ کے مذاکرات کرتے، لیکن جب حکومت پر لانگ مارچ کا دباؤ پڑے گا تو پھراسے لازمی مذاکرات کیلئے تیار ہونا ہوگا۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں لانگ مارچ کو نہیں روکتیں بلکہ اسلام آباد جانے دیتی ہیں جس سے سارا دباؤ اسلام آباد اور راولپنڈی کی اسٹیبلشمنٹ پر آجاتا ہے، کہ وہ کیسے اس مجمع کو گھر بھیجے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دونوں فریقین حکومت اور اپوزیشن کو مجبور کرے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیلئے مذاکرات کریں ۔کیونکہ اگر لانگ مارچ واقعی ہوگا تو سارا دباؤ حکومت پر نہیں بلکہ تیسرے فریق پر ہوگا، اور تیسرا فریق نہیں چاہے گا کہ مولانا خادم رضوی کے مذہبی دھرنوں کے بعد اب سیاسی دھرنوں کو ختم کرنے کیلئے بھی وہی مذاکرات کریں۔ انہوں نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کے اکثریتی حامیوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا مطلب اپوزیشن کے لیے این آر او کے سواکچھ نہیں، یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ مذاکرات ہمیشہ لین دین اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
Credits Urdu Points