اسٹیبلشمنٹ کا حکومت اور اپوزیشن میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کروانے کا امکان

67


لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 نومبر2020ء) اسٹیبلشمنٹ کا حکومت اور اپوزیشن میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کروانے کا امکان ہے، سینئر تجزیہ کا رسہیل وڑائچ نے کہا کہ ماہ دسمبر اور جنوری اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کیلئے فیصلہ کن ہیں،لانگ مارچ کو صوبے نہیں روکیں گے، سارا دباؤ اسلام آباد اور راولپنڈی پر آجائیگا، لیکن تیسرا فریق نہیں چاہے گا کہ سیاسی مذاکرات بھی وہ کریں۔ سینئر تجزیہ کار نے روزنامہ جنگ میں شائع اپنے کالم کو ٹویٹر پر شیئر کیا،جس میں سہیل وڑائچ نے پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک اور حکومت کے لائحہ عمل سے متعلق بیان کیا کہ ماہ دسمبر اور جنوری کو اپوزیشن نے اپنی احتجاجی تحریک کے فیصلہ کن اقدامات کیلئے طے کررکھا ہے۔انہی مہینوں میں لاہور کا جلسہ ہوگا اور پھر معاملہ لانگ مارچ کی طرف چلا جائے گا۔

()

حکومت کی جانب سے ابھی سوائے پکڑ دھکڑ کے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔توقع یہ ہے کہ لانگ مارچ سے قبل ہر صورت مذاکرات ہوں گے۔ بہتر تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن بغیر کسی دباؤ کے مذاکرات کرتے، لیکن جب حکومت پر لانگ مارچ کا دباؤ پڑے گا تو پھراسے لازمی مذاکرات کیلئے تیار ہونا ہوگا۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں لانگ مارچ کو نہیں روکتیں بلکہ اسلام آباد جانے دیتی ہیں جس سے سارا دباؤ اسلام آباد اور راولپنڈی کی اسٹیبلشمنٹ پر آجاتا ہے، کہ وہ کیسے اس مجمع کو گھر بھیجے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دونوں فریقین حکومت اور اپوزیشن کو مجبور کرے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیلئے مذاکرات کریں ۔کیونکہ اگر لانگ مارچ واقعی ہوگا تو سارا دباؤ حکومت پر نہیں بلکہ تیسرے فریق پر ہوگا، اور تیسرا فریق نہیں چاہے گا کہ مولانا خادم رضوی کے مذہبی دھرنوں کے بعد اب سیاسی دھرنوں کو ختم کرنے کیلئے بھی وہی مذاکرات کریں۔ انہوں نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کے اکثریتی حامیوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا مطلب اپوزیشن کے لیے این آر او کے سواکچھ نہیں، یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ مذاکرات ہمیشہ لین دین اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔



Source link

Credits Urdu Points