()
نکات بھی منظر عام پر آچکے ہیں ، ہمارا تنظیمی ڈھانچہ بھی بن چکا ہے، پوری جماعتیں پوری یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، 26 نومبر کو لاڑکانہ اور 30نومبر کو ملتان میں ہوگا۔آنے والے دنوں میں آئندہ کا شیڈول بھی دیں گے۔حکمرانوں کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے، قوم کے چوری ووٹ اور عوام کی چھینی گئی امانت کو واپس کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ کا سالانہ جی ڈی پی گروتھ یا شرح نمو 0.4ہوگیا ہے، جو ملک معاشی دیوالیہ ہوجائے تو پھر ریاست کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ میں ان اداروں کو بھی کہتا ہوں کہ جو ریاست کے دفاع کی ذمہ داری کو فرض سمجھتے ہیں، دشمن کا حملہ کرنا ہی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ معاشی انحطاط ، معاشی بحران یہ بھی ریاست کے خاتمے کا سبب بنتا ہے، جس طرح سویت یونین بنا، اس طرح کی صورتحال میں وہ ادارے ناجائز نااہل حکومت کی پشت پناہی کریں اور کہیں کہ ہم فرض ادا کررہے ہیں ، تو وہ ریاست کی بقاء کا فرض نہیں بلکہ ہم ان کو پھر واضح کہیں گے آپ بھی ریاست کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، ہم یہ کہنے کیلئے سنجیدہ ہیں، ہم کسی کو اس ملک کا مالک نہیں سمجھتے ، مالک صرف عوام ہیں، اگر کوئی خطرہ بننے کی کوشش کرے گا تو پھر عوام ، فو ج سول بیوروکریسی اوراسٹیبشلمنٹ کو ایک پیج پر لڑنا ہوگا،یہ تقسیم عجیب ہے کہ ملک نیچے جارہا ہے اورہم اس نااہل حکومت کو سپورٹ کرتے جارہے ہوں اس سے بڑھ کر ذمہ داریوں سے انحراف کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ دنیا کی سیاست کی تبدیل ہوچکی ہے، اب ایک ٹرمپ تو چلا گیا اب ہمیں پاکستان کے ٹرمپ کو بھی اسی طرح بھیجنا ہے،پھر انڈیا کاٹرمپ رہ جائے گا وہ انڈیا کے عوام کا مسئلہ ہے۔ پشاور کے لوگ کسی اور سے کیوں پوچھیں کہ پاکستان کا کیا حال ہے؟ ہم تو بی آرٹی کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بسیں جل رہی ہیں، اس سے بڑی اور کیا نااہلی ہوگی؟
Credits Urdu Points