نیپال کے 100 روپے کے نوٹ سے انڈیا ناراض کیوں ہے؟

16
نیپال کے 100 روپے کے نوٹ سے انڈیا ناراض کیوں ہے؟


،تصویر کا ذریعہGolden Brown/

  • مصنف, اشوک دہل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، نیپالی

نیپال کے نئے نقشے کے ساتھ جاری کیے جانے والے 100 روپے کے نیپالی نوٹ کے اجرا پر ہمسایہ ملک انڈیا کی ناراضی پر حکومت نے کہا ہے کہ اس فیصلے میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ معمول کی کارروائی ہے۔

بی بی سی نیوز نیپالی سے بات کرتے ہوئے نیپال حکومت کی ترجمان اور وزیراعظم پشپ کمار دہل کی کابینہ میں اطلاعات اور مواصلات کی وزیر ریکھا شرما نے کہا کہ ’نیپال راشٹرا بینک کے پاس پرانے نقشے والے نوٹ ختم ہونے والے ہیں، اس لیے انھیں نئے نوٹ چھاپنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔‘

انھوں نے کہا، ’ہمارے پاس 100 روپے کے پرانے نوٹ ختم ہونے والے ہیں۔ چونکہ پچھلے ڈیزائن میں پرانا نقشہ تھا، اس لیے جب ہم انھیں ہی دوبارہ چھاپتے تو ایسا لگتا جیسے ہمیں نئے نقشے کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ عمل ہے کیونکہ نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کابینہ کرتی ہے۔‘

نیپال نے جون 2020 میں ملک کا نیا سرکاری نقشہ جاری کیا تھا جس میں کالاپانی، لمپیادھورا اور لیپولیکھ کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

رواں ماہ نیپال کے آئین میں ترمیم کے بعد سے یہ نیا نقشہ ملک کی سرکاری دستاویزات اور مہروں میں استعمال کیا جا رہا ہے اور اب 100 روپے کے نوٹ پر بھی یہی نقشہ چھاپا گیا ہے۔

نیپال

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنوزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم پشپ کمار کی فائل فوٹو

نیپالی حکومت کے اس فیصلے پر انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ ’نئے نوٹوں میں دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ علاقے کے نقشے کو شامل کرنے کے نیپال کے یکطرفہ فیصلے سے اصل صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارا موقف بہت واضح ہے کہ ہم ایک طے شدہ پلیٹ فارم سے اپنی حدود کے بارے میں بات کر رہے ہیں، لیکن اس دوران ان کا یکطرفہ فیصلہ ہمارے بیچ کی صورتحال یا اس جگہ کی حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔‘

نیپالی حکومت کے اس فیصلے سے جہاں انڈین حکومت ناخوش ہے وہیں نیپال کی سفارت کاری اور معیشت کے کچھ ماہرین نے بھی اسے پراچندا حکومت کا ’نادان‘ قدم قرار دیا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ ’صرف مقبولیت حاصل کرنے کے لیے کیا کیونکہ نیپال کے چار سال قبل جاری کیے گئے نئے نقشے کو عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ملی۔‘

نیپال نے نئے نقشے کو تسلیم کرانے کے لیے کیا کوششیں کیں؟

نیپال
،تصویر کا کیپشناگرچہ انڈیا کے 500 روپے سے کم مالیت کے نوٹوں کو نیپال میں تسلیم کیا جاتا ہے، انڈیا نیپالی نوٹوں کے اپنے ملک میں کاروبار کے لیے لین دین کو تسلیم نہیں کرتا

اگست 2023 میں جب چین نے اپنے ملک کا نیا نقشہ جاری کیا تھا تو یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا نیپالی حکومت اپنے نئے نقشے کو بین الاقوامی سطح پر قبولیت دلانے کے لیے کوئی قدم اٹھا رہی ہے یا نہیں۔

پارلیمنٹ کی بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی میں سابق وزیر اعظم مادھو کمار نیپال سمیت کئی ارکان پارلیمان نے سوال کیا کہ کیا بین الاقوامی برادری کو نیپال کے اپ ڈیٹ کیے گئے نقشے کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا یا نہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے چیئرمین راجکشور یادیو نے بی بی سی نیوز نیپالی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم نے وزارت سے جواب طلب کیا تو وہ اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کر سکے کہ آیا نیپال نے اپ ڈیٹ کردہ نقشے کے بارے میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو تحریری معلومات بھیجی ہیں۔‘

اس وقت کے وزیر خارجہ گیاوالی کہتے رہے ہیں کہ ’کھٹمنڈو میں بین الاقوامی سفارت کاروں کو نیپال کے نئے نقشے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے‘ لیکن بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے چیئرمین یادیو کا کہنا ہے کہ وزارت کے ادارہ جاتی ریکارڈ میں اس بارے میں کوئی معلومات غیر ممالک کو نہیں بھیجی گئی ہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی نے وزارت خارجہ کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

خدشہ ہے کہ نئے نوٹوں سے مسائل پیدا ہوں گے

نیپال
،تصویر کا کیپشن’نیپال کا آئین صرف ملک کے اندر لاگو ہوتا ہے۔ لیکن نیپالی نوٹ انڈیا کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بھی چل رہے ہیں‘

نیپال راشٹرا بینک کے سابق گورنر اور صدر کے مشیر چرنجیوی نیپال کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے جمعرات کے فیصلے سے راشٹرا بینک کو نوٹوں پر نیا نقشہ شائع کرنے کی اجازت دینے سے نیپال کو انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

چرنجیوی نیپال کہتے ہیں، ’نیپال کا آئین صرف ملک کے اندر لاگو ہوتا ہے۔ لیکن نیپالی نوٹ انڈیا کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بھی چل رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نیپال کے ترائی اور سرحدی علاقوں میں کاروباری لین دین عام طور پر نیرو (نیپالی روپیہ) اور بھرو (ہندوستانی روپیہ) میں کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی 100 روپے کے نئے نوٹ مارکیٹ میں آئیں گے، امکان ہے کہ یہ سرحدی بازاروں میں کام نہیں کریں گے‘۔

اگرچہ انڈیا کے 500 روپے سے کم مالیت کے نوٹوں کو نیپال میں تسلیم کیا جاتا ہے، انڈیا نیپالی نوٹوں کے اپنے ملک میں کاروبار کے لیے لین دین کو تسلیم نہیں کرتا۔

چرنجیوی نیپال کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ ہندوستان سرحدی علاقوں میں 100 روپے کے نوٹوں کے ساتھ ساتھ دیگر مالیت کے نیپالی نوٹوں کے استعمال پر بھی پابندی لگا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نوٹوں کے اجرا سے قبل پہلے نئے نقشے کی بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھا۔

نیپال کو کیا کرنا چاہیے تھا؟

نیپال

،تصویر کا ذریعہRSS

،تصویر کا کیپشنسفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کی جانب سے نقشہ شائع کرنے کے بعد انڈیا سے سرحدی مسئلے کے حل کے لیے بنائے گئے مستقل اور عارضی میکانزم کا کام بھی متاثر ہوا ہے

تریبھون یونیورسٹی کے ڈین اور انٹرنیشنل ڈپلومیسی کے پروفیسر کھڑکا کے سی سروبھوم کہتے ہیں کہ ایک خودمختار ملک کو اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ پڑوسی یا دوسرے ممالک اپنے نوٹوں پر ملک کے نقشے کی اشاعت کے بارے میں کیا کہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں نقشوں کو شامل کرنے کا معاملہ ایک خودمختار ملک کا معاملہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’نئے نقشے کے ساتھ نوٹ چھاپنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن یہ زیادہ قابل قبول ہوتا اگر اسے اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں کے سامنے ٹھوس اور جامع انداز میں پیش کیا جاتا‘۔

پروفیسر کھڑکا کے سی سروبھوم نے کہا کہ نیپال کو اپنی زمین پر دعویٰ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے ’انڈیا اور چین کے درمیان بہت سے سرحدی تنازعات ہیں، لیکن اس سے ان کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔‘

پروفیسر سروبھوم کہتے ہیں، ’ہمیں یہ مسئلہ بھی اٹھانا چاہیے تاکہ اس سے انڈیا کے ساتھ دیگر تعلقات متاثر نہ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ سے نیا نقشہ پاس ہونے کے بعد ان ممالک اور اقوام متحدہ کے اداروں کو مطلع کیا جانا چاہیے تھا جن کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات ہیں، اگر ایسا نہ بھی ہوا تو میں سمجھتا ہوں کہ خط لکھنا بہتر ہوتا اور پھر اسے نوٹ میں شامل کرنا ایک سمجھدار اقدام ہوتا۔‘

بین الاقوامی تعلقات کمیٹی کے چیئرمین راجکشور یادو کا بھی کہنا ہے کہ حکومت نے اس کے طویل مدتی اثرات پر غور کیے بغیر نوٹوں میں نقشہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا ’میرے خیال میں یہ فیصلہ صرف داخلی مسائل کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ اس سے ہمارے مفادات کا کتنا تحفظ ہوتا ہے یا اس سے ان پر کیا اثر پڑتا ہے۔‘

خیال رہے کہ نیپال کی جانب سے جاری کیے گئے نئے نقشے میں شامل علاقوں تک حکومتی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نیپال اس علاقے میں مردم شماری کرنے کے قابل نہیں تھا۔

کچھ سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کی جانب سے نقشہ شائع کرنے کے بعد انڈیا سے سرحدی مسئلے کے حل کے لیے بنائے گئے مستقل اور عارضی میکانزم کا کام بھی متاثر ہوا ہے۔



Source link

Credits BBC Urdu