بچوں میں سمارٹ فون کی لت: ’پڑھائی، صحت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے‘

39
بچوں میں سمارٹ فون کی لت: ’پڑھائی، صحت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے‘


،تصویر کا ذریعہ

اب یہ حقیقت ہے کہ سکرینز ہماری روزمرہ کی زندگیوں کا انتہائی اہم حصہ ہیں اور یہ خاصی متاثر کن ہوتی ہیں اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے بچے ان کے بارے میں بہت جلدی، آسانی سے اور فطرتاً سیکھ لیتے ہیں۔

بہت سے والدین بہت ہی کم عمری میں اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے ان کے ہاتھ میں موبائل فونز تھما دیتے ہیں، بہت سے ایسے واقعات کا مشاہدہ یقیناً ہم نے کیا ہو گا جب کوئی بچہ شاید ایک یا دو سال کی عمر کا بھی نہیں ہوا لیکن اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فون پر سوائپ کرنے سے روشنی جلتی ہے۔

موبائل سکرینز بہت جلد بچوں کو اپنا عادی بنا لیتی ہیں اور اس کے باعث بچوں کے ذہنوں میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کے بارے میں ہم آہستہ آہستہ جان رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کم سن بچوں میں موبائل فون کے استعمال کی عادت نے ان کے رویوں پر بہت سے اثرات مرتب کیے ہیں۔ خصوصاً 12 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کو والدین کی جانب سے موبائل فون دینے کی عادت نے نہ صرف ان کی صحت کو متاثر کیا ہے بلکہ ان میں ضد اور ذہنی تناؤ کے عنصر کو بھی بڑھایا ہے۔

ماہ نور اپنے چھ سالہ بیٹے راحم کی اپنا ذاتی فون لینے کی فرمائش کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس نے مجھے کہا ماما مجھے اپنا ذاتی فون چاہیے۔ میں نے نہ صرف اس کو منع کیا بلکہ یہ سن کر حیران رہ گئی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن بچوں کو ایسی چیزوں کے لیے انکار کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا کیونکہ جب وہ اپنے ارد گرد ہم عمروں کے پاس وہی چیز دیکھتے ہیں تو انھیں لگتا ہے والدین ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں یا وہ ان سے پیار نہیں کرتے۔‘

ماہ نور بتاتی ہیں کہ جب بھی وہ اپنے بیٹے راحم سے موبائل پر گیم بند کرنے یا موبائل واپس لینے کا کہتی ہیں تو اس کے مزاج میں چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔

’وہ بہت بدمزاج ہو جاتا ہے۔ رونا دھونا شروع کر دیتا تھا۔ اگر موبائل لے لو یا گیم بند کر دو تو وہ بدتمیزی کرتا ہے۔ ناراض ہو جاتا۔‘

لیکن یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ آج کل تمام والدین اپنے بچوں کے سکرین ٹائم بڑھنے پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان پیڈیئٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں چھ سے اٹھارہ سال کے 80 فیصد بچے ایک دن میں چار سے چھ گھنٹے سکرینز دیکھتے ہیں۔ یہ موبائل، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس قدر سکرینز دیکھنے کے باعث 30 فیصد بچوں کی نزدیک کی نظر کمزور ہے جبکہ پچاس فیصد بچے ایسے ہیں جو کہ نظر کے دھندلے پن، سر درد اور آنکھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔

’پڑھائی، صحت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی تناؤ بھی ہوتا ہے‘

بچوں میں فون کا استعمال

،تصویر کا ذریعہ

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر نوشین کاظمی ایک سائیکاٹرسٹ ہیں اور ان کے مطابق موبائل اور گیمز کی لت نے بچوں میں بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں اور ایسے کیسز اکثر آتے ہیں جہاں والدین بے بس دکھائی دیتے ہیں اور بچے ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو سکرین پر وقت کا احساس نہیں ہوتا اور ان کی ’پڑھائی، صحت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ذہنی تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اس وقت آپ بچوں سے یہ موبائل اور گیم لے بھی لیں تب بھی ان کی نیند بہت اچھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ان کی نظر کی خرابی، جسمانی صحت میں مسئلوں کے ساتھ ساتھ ان میں کسی چیز پر توجہ دینے کی اہلیت کم ہوتی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر نوشین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت سے بچے ڈپریشن کے ساتھ آتے ہیں اور ان میں دیکھا گیا ہے کہ ان بچوں کو سکرین ٹائم بہت زیادہ ہوتا ہے۔

’کورونا وبا کے دوران بچوں کا سکرین ٹائم زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ دیکھا گیا ہے کہ انھوں نے سکول واپس جا کر سوشلائزیشن کم کی ہے۔ دوستی بنانے کا رحجان کم دیکھا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے میرے پاس دو تین ایسے کیسز ہیں جن میں او لیول کے بچے گیم کی اتنی لت میں مبتلا ہوئے کہ وہ اب کئی بار سکول جا کر بھی پڑھائی شروع نہیں کر سکے۔

سکرین ٹائم میں اضافے کے ذہنی اثرات کے متعلق ماہر نفسیات ڈاکٹر پنکج کمار کا کہنا ہے ’تحقیق کے مطابق اگر بچے یا نو عمر چھ، سات گھنٹے سے زیادہ سکرین پر رہیں تو ان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے خود پر قابو پانے، تجسس کا فقدان، جذباتی استحکام کا فقدان، توجہ مرکوز کرنے میں کمی اور آسانی سے دوست بنانے کے قابل نہ ہونا جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ تاہم یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ سکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں، فلمیں، ویڈیوز، گیمز، سوشل میڈیا دیکھ رہے ہیں یا کچھ پڑھ رہے ہیں۔ ’اس کا اثر ایک بچے سے دوسرے بچے میں بھی مختلف ہوسکتا ہے۔‘

تحقیق کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ جو طالب علم پڑھائی کے دوران ٹیکسٹ پیغامات بھیجتے یا وصول کرتے ہیں ان کے امتحانی نتائج اتنے اچھے نہیں ہوتے اور وہ توجہ طلب کام بھی اچھی طرح نہیں کر پاتے۔

یہ بھی پڑھیے

بچے کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟

gettyimages

،تصویر کا ذریعہgettyimages

بچے اپنے والدین سے ہی فون کا استعمال سیکھتے ہیں۔ پیدائش سے آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر ایک یورپی رپورٹ کے مطابق عمر کے اس حصے میں خطرات کا ادراک نہیں ہوتا تاہم بچے اپنے والدین کی نقل کر رہے ہوتے ہیں۔

آج کل اکثر والدین اس بات کو لے کر کافی پریشان ہیں کہ اپنے بچوں کو سمارٹ فون دینا چاہیے یا جب تک ممکن ہو انھیں اس سے دور رکھا جائے؟

اگرچہ ہمارے پاس اس بات کے کوئی مصدقہ اور واضح شواہد نہیں ہیں کہ بچوں کی ذہنی صحت پر سمارٹ فون یا سوشل میڈیا تک رسائی کے عموماً برے اثرات ہوتے ہیں۔ تاہم اب تک ہونے والی زیادہ تر تحقیق نوبالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے حوالے سے کی گئی ہے اور شواہد بتاتے ہیں کہ ذہنی نشوونما کے مخصوص ماہ و سال میں بچوں پر سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

زیادہ تر ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرتے وقت کہ آپ کا بچہ سمارٹ فون کے لیے تیار ہے، ہمیں کچھ عوامل کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بچے کو سمارٹ فون دینے کے بعد ہمیں بطور والدین کیا کرنا چاہیے۔

پیدائش سے آٹھ برس تک کی عمر کے بچوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے کی گئی یورپی تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ اس عمر کے بچوں کو ’انٹرنیٹ کے خطرات کی کچھ سمجھ نہیں ہوتی یا بہت کم سمجھ ہوتی ہے‘ اور اگر اس عمر سے بڑے بچوں پر سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے واضح اثرات کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی ہمارے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

ڈاکٹر نوشین کاظمی کہتی ہیں کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا جانتے ہوں۔

’اس میں یہ ہے کہ بچے کو واضح طور پر بتایا جائے کہ وہ کون سی ایپ استعمال کر سکتا ہے کتنی دیر استعمال کر سکتا ہے۔ والدین شروع سے ہی بچے کو کھلی چھوٹ نہ دیں تو پھر مسئلہ نہیں ہو گا۔ چھ گھنٹے کے سکرین ٹائم کو وقت گزرنے کے بعد دو گھنٹے نہیں کیا جا سکتا تو بہتر ہے ابتدا سے ہی اسے مدنظر رکھیں۔ پاسورڈ لگا ہونا چاہیے، ٹائمر سیٹ ہونا چاہیے، بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے کی اجازت عمر کو مد نظر رکھ کر دی جانی چاہیے۔‘

ڈاکٹر نوشین کہتی ہیں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچے کی عمر کے مطابق اس کو مواد دیکھنے کی اجازت یا رسائی ہو۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انٹرنیٹ سیفٹی پر بات ہونی چاہیے سکول میں اور گھروں میں تاکہ بچوں کو آگاہی ہو۔

’ہمارے پاس ایسے کیسز بھی آئے ہیں جن میں چھوٹے بچے اور بچیوں نے نامناسب مواد دیکھا جو ان کے لیے پریشان کن تھا اور انھیں ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انھیں غلط لوگوں سے بات کرنے پر بلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔‘

کیا آپ سمارٹ فون کی لت کا شکار ہیں؟

بچوں میں فون کا استعمال

،تصویر کا ذریعہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو خدشہ ہے کہ آپ موبائل فون کی لت کا شکار ہیں تو درج ذیل اس کی چند ابتدائی علامات ہیں:

بغیر کسی وجہ کے مسلسل فون کو دیکھنا۔

فون کے بغیر ہونے کے خیال سے پریشان یا بےچینی محسوس کرنا۔

فون پر وقت گزارنے کو سماجی تعلقات پر فوقیت دینا۔

بیچ رات میں اپنے سمارٹ فون چیک کرنے کے لیے جاگنا۔

فون پر زیادہ وقت گزارنے کے نتیجے میں تعلیم یا کام کی کارکردگی میں کمی آنا۔



Source link

Credits BBC Urdu