اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اگست 2024ء) باکسر سنڈی نامبا نے تاریخ رقم کرتے ہوئے پیرس اولمپک کھیلوں میں پناہ گزینوں کی ٹیم کی جانب سے پہلے میڈل کا حصول یقینی بنا لیا ہے۔
سنڈی نامبا اولمپک کھیلوں میں پناہ گزینوں کی ٹیم میں جگہ بنانے والی پہلی باکسر ہیں جنہوں ںے 75 کلوگرام کیٹیگری میں کوارٹر فائنل مقابلہ جیت کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی ہے۔
اس کامیابی کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پناہ گزینوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور خود پر یقین قائم رکھیں کیونکہ وہ سب کچھ حاصل کرنے کی صلاحٰت رکھتے ہیں۔
سنڈی نامبا کو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ افریقی ملک کیمرون سے برطانیہ میں نقل مکانی کرنا پڑی تھی جہاں انہیں انگریزی زبان نہیں آتی تھی اور انہوں نے ہراسانی کا سامنا بھی کیا۔
()
اب وہ اولمپک کھیلوں میں کم از کم کانسی کا تمغہ حاصل کرنے کی حق دار ہو گئی ہیں۔
ان کا اگلا مقابلہ جمعرات کو پانامہ کی کھلاڑی ایتھینا بائلون سے ہوگا جس میں فتح پانے والی باکسر فائنل کھیل کر سونے یا چاندی کا تمغہ جیتے گی۔
امید کا پیغام
سنڈی نامبا کی والدہ، خالہ اور ان کے بعض بہن بھائی پیرس میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اولمپک کا خواب اور بھی خاص ہو گیا ہے۔
کوارٹر فائنل جیتنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اولمپک میڈل حاصل کرنے والی پہلی پناہ گزین کھلاڑی ہونا ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ آئندہ مقابلے میں مزید بڑے میڈل کی حق دار ہو جائیں گی۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے سنڈی نامبا کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کے پناہ گزینوں اور ان کے لیے کام کرنے والوں سمیت سبھی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
سب سے بڑی ٹیم
نامبا پیرس اولمپک میں حصہ لینے والی پناہ گزینوں کی 37 رکنی ٹیم کا حصہ ہیں۔ یہ ان کھیلوں کی تاریخ میں اب تک پناہ گزین کھلاڑیوں کا سب سے بڑا دستہ ہے۔ انہوں نے المپکس کی افتتاحی تقریب میں پناہ گزینوں کی ٹیم کا پرچم بھی اٹھایا تھا۔
پناہ گزینوں کی ٹیم نے سب سے پہلے 2016 کے ریو اولمپکس میں شرکت کی تھی جس میں 16 کھلاڑی شامل تھے۔
اس کے بعد 2020 میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں پناہ گزینوں کا 29 رکنی دستہ شریک ہوا تھا۔
اکیلا پن، ہراسانی اور کامیابی
سنڈی نامبا کہتی ہیں کہ جب وہ برطانیہ آئیں تو انہیں سکول میں ہراسانی اور اکیلے پن کا سامنا ہوا۔ تاہم جلد ہی انہیں باکسنگ سیکھنے کا موقع ملا اور کھیل کی بدولت وہ بہت سے مسائل سے نکل آئیں۔ ابتدا میں انہیں کھیلنے کے لیے ساتھی لڑکیاں نہیں ملتی تھیں اور اسی وجہ سے انہیں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا پڑا۔
لیکن جلد ہی اپنی مہارت کی بدولت وہ مقابلے جیتنے لگیں اور 2019 میں قومی چیمپئن شپ میں بھی فتح پائی۔
انہوں نے اولمپک رفیوجی فاؤنڈیشن کے پناہ گزین کھلاڑیوں کے لیے وظائف کے پروگرام کے ذریعے پیرس اولمپکس کے لیے تربیت حاصل کی تھی۔ اس پروگرام کے لیے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے مالی وسائل مہیا کیے ہیں۔
قابل فخر لمحہ
اولمپک رفیوجی فاؤنڈیشن کے سربراہ جوجو فیرس نے کہا ہےکہ نامبا کی جیت ایک طاقتور پیغام ہے۔
انہوں نے یاد دلایا ہےکہ پناہ گزین کیا کچھ کر سکتے ہیں اور اگر انہیں مواقع میسر آئیں تو وہ ناصرف خود ترقی پاتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنے میزبان ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سنڈی، پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم اور دنیا بھر میں پھیلے 12 کروڑ ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑا لمحہ ہے جنہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
Credits Urdu Points