تحریری حکم کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کو اپنے کام کی اخلاقیات میں بالاتر ہونا چاہیے اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ سماعت ختم ہونے کے فوراً بعد قانون اور پریکٹس کے مطابق تحریری احکامات جاری کئے جانے چاہیے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اضافی نوٹ
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔26جولائی 2024 ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز کو تحریر ی فیصلہ مناسب وقت میں جاری کرنے کا مشورہ دیدیا، جمعرات کو ایک تحریری حکم کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کو اپنے کام کی اخلاقیات میں بالاتر ہونا چاہیے اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ سماعت ختم ہونے کے فوراً بعد قانون اور پریکٹس کے مطابق تحریری احکامات جاری کئے جانے چاہیے۔ججز کی طرف سے تحریری احکامات جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے توجہ مبذول کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کومناسب وقت میں فیصلہ جاری کرنے کا مشورہ دے دیا۔جسٹس اطہر من اللہ کی طرف سے تصنیف کردہ 16 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں سندھ ہائی کورٹ کے جون 2013 کے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے سیکشن 3 اے کو غیر قانونی قرار دینے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی۔
()
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت 6 دسمبر 2023 کو ہوئی اور اسی دن جسٹس من اللہ کو فیصلہ لکھنے کیلئے نامزد کیا گیا لیکن انہیں ایسا کرنے میں 223 دن لگے۔انہوں نے نوٹ کیا کہ جسٹس من اللہ نے انہیں 18 جولائی کو فیصلہ بھیجا اور اگلے ہی دن انہوں نے اپنا نوٹ لکھا اور اس پر دستخط کر دئیے۔ کوڈ آف سول پروسیجر، 1908 کے آرڈر XX رول 1(2) کا ذکر کیا جو سول مقدمات کے فیصلے کے طریقہ کار کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ آرڈر تجویز کرتا ہے کہ فیصلے کا تحریری حکم نامہ 30 دن کے اندر لکھا جائے۔چیف جسٹس نے نوٹ کیا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ایک بڑی رقم عدالت پر خرچ کی جاتی ہے اس لئے ججز کو مقدمات کا فیصلہ محنت اور تندہی سے کنے کی کوشش کرنی چاہیے۔چیف جسٹس نے عدالت کے ماضی کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر تحریری احکامات جاری کرنے میں کافی تاخیر ہوتی ہے تو ججز سماعت کے دوران کیے گئے دلائل کو یاد نہیں کر پائیں گے۔
متعلقہ عنوان :
Credits Urdu Points