اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جولائی 2024ء ) پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کو 9 مئی کے مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے صنم جاوید کو گوجرنوالہ مقدمے سے ڈسچارج کیا تھا، پنجاب حکومت نے 2 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی جانب سے صنم جاوید کو نوٹس بھجوایا گیا جو صنم جاوید کو موصول ہو گیا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صنم جاوید کے خلاف کیسز کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے بار بار ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں صنم جاوید کا نام ثبوت کے بغیر رکھنا بدنیتی کا مظاہرہ ہے، جس سے ملک کے عدالتی نظام کو بدنام کرنے اور اسے شکست دینے کی دانستہ کوشش بے نقاب ہوتی ہے۔
()
عدالت نے گوجرانوالہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے خلاف مقدمہ من گھڑت اور بدنیتی کی بنیاد پر درج کیا گیا اس لیے انہیں فوری طور پر بری کر دیا جائے، عدالتوں کو جھوٹی اور بے بنیاد شکایات کو سماعت کیلئے منظور کرکے بے مقصداور غلیظ مہمات کا حصہ بننے کی بجائے بلاخوف و خطر قانون کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہیئں، اگر عدالتیں ایسے آئینی مینڈیٹ کو نظر اندازکریں گی اور اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتیں تو اس سے فوجداری عدالتی نظام کی آزادی، وقار اور غیرجانبداری کو نقصان ہوگا، اس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بھی کم ہوگا۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے مزید لکھا کہ ہوسکتا ہے کسی کو صنم جاوید کے سیاسی خیالات سے اتفاق نہ ہو لیکن اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں اس کی سزا ملنی چاہیئے لیکن جس طرح اور جس انداز میں انہیں یکے بعد دیگرے فوجداری مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے اسے ایذا رسانی کہا جاسکتا ہے، جو کچھ صنم جاوید کے ساتھ کیا جارہا ہے اس کو شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ کے طور پر یہ عدالت کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔
Credits Urdu Points