قائم مقام گورنر نے ہتک عزت بل پر دستخط کر دئیے، باقاعدہ قانون بن گیا

12
قائم مقام گورنر نے ہتک عزت بل پر دستخط کر دئیے، باقاعدہ قانون بن گیا


لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔08جون 2024 ) پنجاب میں اپوزیشن اور صحافیوں کے تحفظات نذر انداز کرتے ہوئے قائم مقام گورنر پنجاب نے ہتک عزت بل پر دستخط کر دئیے جس کے بعد بل باقاعدہ قانون بن گیا،گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کے رخصت پر جانے کے بعد قائم مقام گورنر ملک احمد خان نے ہتک عزت بل پر دستخط کئے،ہتک عزت بل کو واپس پنجاب اسمبلی بھجوا دیا گیا۔ ہتک عزت بل گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد نافذ العمل ہوجائے گا۔ پنجاب اسمبلی سے منظور کیے گئے بل پر گورنر کے دستخط ضروری ہیں کیونکہ گورنر کے دستخط کے بغیر پنجاب اسمبلی سے منظور کیا گیا کوئی بل قانون نہیں بن سکتا۔گزشتہ ماہ پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت بل پاس ہوا جسے منظوری کیلئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کو بھجوایا گیا۔ گورنر پنجاب نے ہتک عزت بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

()

اس کے معاملے پر پنجاب حکومت اور گورنر پنجاب کے درمیان ملاقات بھی ہوئی تھی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔یہ بھی بتایاگیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے ہتک عزت بل پر صدر آصف علی زرداری سے خصوصی ملاقات کی تھی جس کے بعد آصف زرداری نے گورنر پنجاب کو رخصت پر جانے کا مشورہ دیا اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر 6جون سے 12جون تک بیرون ملک رخصت پر چلے گئے جس کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالتے ساتھ ہی ہتک عزت بل پر دستخط کر دئیے۔گورنر ہاوس کے ذرائع نے ہتک عزت بل پر قائم مقام گورنر پنجاب ملک احمد خان کی جانب سے دستخط کئے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔پنجاب اسمبلی سے منظور کرائے گئے قانون کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا، یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس، ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہو گا۔قانون بننے کے بعد 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائیکورٹ کے بینچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے، خواتین اور خواجہ سراوں کو کیس میں قانونی معاونت کیلئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہو گی۔ہتک عزت قانون کے تحت کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر کارروائی ہو گی، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔خیال رہے کہ 20مئی کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں کے تحفظات اور احتجاج کے باوجود صوبائی حکومت کا پیش کردہ ہتک عزت بل 2024 منظور کرلیا گیاتھا۔ایجنڈے پر ہتک عزت بل شامل ہونے پر اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے بل کے خلاف نعرے بلند کئے تھے۔اجلاس میں لوکل گورنمنٹ کے سوالات اور توجہ دلاو نوٹس کے بعد وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے ہتک عزت بل 2024 پیش کیاتھا۔ اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے لگائے گئے اور احتجاج کیا گیا جبکہ صحافیوں نے بھی پریس گیلری کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی احاطے میں احتجاج کیا جبکہ ملک گیر احتجاج کی کال بھی دی تھی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بل کے اہم نکات اور اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیا تھا۔بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کی تجویز کردہ تمام ترامیم مسترد کردی گئیں بل اکثریت رائے سے منظور کرلیا گیا۔اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں صحافتی تنظیموں کے عہدیداران نے بل کو صحافتی برادری پر شب خون قرار دیاتھا۔اپوزیشن نے بھی ہتک عزت بل کو مسترد کردیاتھا۔ اپوزیشن نے بل سے متعلق 10 سے زائد ترامیم پنجاب اسمبلی میں جمع کرائیں تھا۔اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے بل کے خلاف احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں تھیں۔



Source link

Credits Urdu Points