ناکام اقتصادی پالیسیوں‘کساد بازاری اور روپے کی قدرمیں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ

12
ناکام اقتصادی پالیسیوں‘کساد بازاری اور روپے کی قدرمیں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ


اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25مئی۔2024 ) پاکستان میں ریاست کی ناکام اقتصادی پالیسیوں‘کساد بازاری اور روپے کی قدرمیں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں غربت کی شرح 38اعشاریہ6 فیصد سے بڑھ کر 39اعشاریہ 5 فیصد ہوگئی ہے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیق کے مطابق قومی سطح پر غربت کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ70فیصد بلوچستان میں‘ خیبر پختونخوا 48 فیصد، سندھ 45 فیصد اور پنجاب میں 30 فیصد اضافہ ہواہے.

()

رپورٹ میں بتایاکیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں ملک بھر کے شہری علاقوں کے مقابلے میں غربت کی شرح زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے تاہم ماہرین اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے نزیک قیام پاکستان سے اعدادوشمار میں معمولی ردوبدل کرکے رپورٹس جاری کردی جاتی ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 51 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ شہری علاقوں میں یہ شرح 17 فیصد ہے. صوبہ سندھ کے علاوہ صوبوں میں کثیر الجہتی غربت میں کمی آئی ہے کیونکہ بلوچستان میں یہ شرح 2014-15 میں 72اعشاریہ2 فیصد سے کم ہو کر 2019-20 میں 70اعشاریہ5 فیصد، کے پی میں 49اعشاریہ1 فیصد سے کم ہو کر 48اعشاریہ8 فیصد ہو گئی ہے جبکہ پنجاب میں کثیر الجہتی غریبوں کا حصہ 31 فیصد سے کم ہو کر 30اعشاریہ4 فیصد رہ گیا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں یہ شرح 2014-15 میں 43اعشاریہ1 فیصد سے بڑھ کر 2019-20 میں 45اعشاریہ2 فیصد ہوگئی تھی. پی آئی ڈی ای نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز پیمائش (پی ایس ایل ایم) سروے کے مختلف دوروں کا استعمال کرتے ہوئے کثیر الجہتی غربت کو پیش کیا گیا ہے کثیر الجہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) الکیرے فوسٹر طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے اور تین جہتوں پر مشتمل ہے: تعلیم، صحت اور معیار زندگی، یہ جہتیں مجموعی طور پر 15 اشارے پر مشتمل ہیں.2014-15 کے مقابلے میں 2019-20 میں کثیر الجہتی غربت میں قدرے اضافہ ہوا ہے. کثیر الجہتی غریبوں کا فیصد حصہ 2014-15 میں 38اعشاریہ8 فیصد سے بڑھ کر 2019-20 میں 39اعشاریہ5 فیصد ہو گیا ہے یہ معمولی اضافہ پاکستان میں کثیر الجہتی غربت کے تاریخی نمونے سے انحراف کی نشاندہی کرتا ہے گزشتہ 15 برسوں کے دوران پاکستان میں کثیر الجہتی غربت میں مسلسل کمی آئی ہے تاہم 2014-15 سے 2019-20 تک کا سفر اس کے برعکس سمت میں ہے 15 سال میں پہلی بار ملک میں کثیر الجہتی غریبوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے اگرچہ پاکستان میں غربت زیادہ تر دیہی علاقوں میں مرکوز ہے لیکن اس کا حصہ مسلسل کم ہو رہا ہے دیہی غربت 2014-15 میں 54اعشاریہ2 فیصد سے کم ہو کر 2019-20 میں 51اعشاریہ9 فیصد رہ گئی ہے بزنس ریکارڈر کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں غربت سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں تقریبا 70 فیصد آبادی غریب ہے، اس کے بعد کے پی کے 48 فیصد اور سندھ 45 فیصد ہے پنجاب میں غربت سب سے کم ہے جس کی 30 فیصد آبادی غریبوں کے طور پر شناخت کی جاتی ہے، یہ واحد صوبہ ہے جس میں ملازمین کی تعداد کا تناسب قومی اوسط 39اعشاریہ1 فیصد سے کم ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 44اعشاریہ1 فیصد آبادی کثیر الجہتی آئی سی ٹی غریبوں کے طور پر شناخت کی جاتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی تقریبا نصف آبادی کو آئی سی ٹی خدمات کی دستیابی، رسائی اور استطاعت میں شدید محرومی کا سامنا ہے اور ڈیجیٹل خواندگی کا شدید فقدان ہے اس کی شدت جو ظاہر کرتی ہے کہ ہر شخص کو اوسطا محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ 43اعشاریہ7 فیصد ہے. تاہم ماہرین اس رپورٹ سے متفق نہیں ہیں وہ اسے اعدادوشمار کا کورکھ دھندا قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ شرح تین ‘چار سال کے دوران 50فیصد سے اوپر جاچکی ہے کیونکہ شہروں میں مہنگائی میں اضافے خصوصا بجلی‘گیس کی قیمتوں میں دوسالوں کے دوران کئی سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جس کی وجہ سے سفید پوش تنخواہ دار طبقہ بھی غریبوں میں شمار ہونے لگا ہے جبکہ حکومت نے نیا ”معیار“یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگیوں کو مقررکردیا ہے ‘دوسال میں بجلی اور گیس کے استعمال کی شرح کا موازانہ پانچ سال پہلے سے کیا جائے تو بجلی اور گیس کی مجموعی طلب ہر سال کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے حکومت قیمتوں میں ماہانہ بنیادوں پر اضافہ کرتی چلی جارہی ہے بجلی کے تین سو یونٹ استعمال کرنے والا دو سو تک آگیا ہے مگر اس کا بل اڑھائی ‘تین ہزار روپے سے بیس ہزار سے اوپرجاچکا ہے ‘گیس کی دن میں صرف8گھنٹے فراہمی کے باوجود اوسط بل10ہزار روپے تک جاپہنچا ہے جوکہ پانچ سال پہلے تین‘چار سو روپے تک تھا. ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ونیم سرکاری ادارے دیہی علاقوں سے اعدادوشمار لے کر رپورٹس مرتب کردیتے ہیں بلکہ کئی بار تو پرانی رپورٹس کے اعدادوشمار میں ہی تھوڑا بہت ردوبدل کرکے انہیں جاری کردیا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں درست اعدادوشمار جمع کرنا مشکل نہیں چار افراد کا کفیل اگر ایک لاکھ روپے تک بھی تنخواہ لے رہا ہے تو بڑے شہروں میں یہ رقم کرنسی کی قدرکم ہونے کی شرح سے پانچ سال پہلے کے حساب سے30ہزار کے قریب بنتی ہے جس کا40فیصد یوٹیلٹی بلوں‘30فیصد کے قریب بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے باقی30فیصد کھانے ‘پینے اور کسی ہنگامی حالت کے لیے بچتا ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی آمدن اور اخراجات جمع کرنا بھی مشکل نہیں کیونکہ 70فیصد سے زیادہ ملازمین کی تنخواہیں بنک اکاﺅنٹس میں جمع ہوتی ہیں اور شہروں میں آبادی کا تناسب دیہی علاقوں سے بڑھ چکا ہے ان حقائق کو حکومتی ادارے چھپاتے ہیں ان کا کہنا ہے یہ اعدادوشمار ”فریز“کیئے ہوئے ہیں قیام پاکستان سے یہ بتایا جارہا ہے کہ70فیصد آبادی دیہی جبکہ30فیصد شہری ہے اگر صرف پنجاب کی مثال لے لی جائے تو لاہور‘روالپنڈی‘فیصل آباد‘ملتان‘گوجرانوالہ‘گجرات سمیت صوبے کے بڑے شہروں کی ووٹرلسٹیں کچھ اور بتاتی ہیں جبکہ ریاستی اداروں کے اعدادوشمار ان کے برعکس ہیں ان شہروں کی آبادیاں سال2000کے بعد سے جس تیزی کے ساتھ بڑھی ہیں ان پر بات نہیں کی جاتی لاہور جیسا بیس ‘بائیس لاکھ کی آبادی والا شہر صرف24سال میں ڈیڑھ کروڑسے اوپر چلاگیا ہے جن میں 1980کی دہائی سے پہلے لاہور میں رہنے والوں کی آبادی آج بھی 40لاکھ سے اوپر نہیں جبکہ باقی ایک کروڑ20لاکھ سے زیادہ لوگ 24سالوں میں دیہاتوں سے نقل مکانی کرکے لاہور آکر آباد ہوئے ہیں یہی صورتحال ملک کے تمام بڑے شہروں کی ہے . ماہرین کے مطابق جسے حکومت ”غربت“قراردے رہی ہے وہ خط غربت سے کہیں بہت نیچے میں زندگی گزارہے ہیں کیونکہ ملک میں مڈل کلاس کے خاتمے کے بعد اب صرف دوطبقات ہی بچے ہیں غریب یا امیر اور ملکی وسائل مجموعی آبادی کے چار‘فیصد امراءکے ہاتھ میں ہیں وسائل کا صرف ایک‘دو فیصد 98فیصد سے زیادہ آبادی کے لیے بچتا ہے جو حکمران طبقہ یوٹیلٹی بلوں‘تعلیم‘صحت‘ٹیکسوں ‘سروسزاور اجناس کے دام بڑھا کر ان کی جیبوں سے نکال لیتا ہے اگر کچھ بچ جائے تو وہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو رشوت کی صورت میں دوبارہ حکومت کو لوٹا دیا جاتا ہے .



Source link

Credits Urdu Points