اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ یکم دسمبر 2020ء) : سینئیر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے حکومت ، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا مشورہ دے دیا ۔ انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ ہم تصادم کی طرف دوڑے جا رہے ہیں مگر حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ تصادم میں ملک کا نقصان ہوگا۔ پہلے سیاست میں کشیدگی آئے گی اور پھر معیشت میں مزید ابتری آئے گی۔ تینوں فریقوں سے یہی درخواست ہے کہ نہ کریں، ایسا نہ کریں۔ ملک کے مسائل کا حل تصادم نہیں، مفاہمت میں ہے۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف جائیں اور ملک کو آگے لے کر جانے پر سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ ملتان کا جلسہ ٹریلر تھا، تصادم، کشیدگی، جھڑپیں، آنسو گیس اور گرفتاریاں۔
()
لاہور کا جلسہ ہونے والا ہے اور پھر لانگ مارچ کی کال دینا ہوگی۔ کہنے کو تو اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی اپوزیشن کے پاس موجود ہے مگر اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے لانگ مارچ کی آپشن استعمال کرنے پر زور دے گی۔ لانگ مارچ کی کال اور پھر اُس پر عملدرآمد۔ یا تو ہر جگہ ملتان جیسی کشیدگی ہوگی، اگر لوگوں کو روکا گیا تو جگہ جگہ لڑائیاں اور لاٹھی چارج ہوگا اور اگر لوگ اسلام آباد یا راولپنڈی پہنچ گئے تو اُنہیں ڈیل کرنا اور بھی مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ ہر ریاست کی اپنی سائنس ہوتی ہے، ہم مانیں یا نہ مانیں ہماری ریاست کی سیاست میں ہمیشہ سے فیصلہ کن کردار ریاستی ادارے ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ ہونا تو نہیں چاہئے مگر ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ بے نظیر بھٹو وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو کے تعاون سے لانگ مارچ کرنے ہی والی تھیں کہ ایک روز پہلے راولپنڈی سے مذاکرات کی کال آ گئی۔ لانگ مارچ کے بغیر ہی حکومت تحلیل ہو گئی اور نئے الیکشن کی راہ ہموار کر دی گئی۔ دوسرا بڑا لانگ مارچ میاں نواز شریف کی قیادت میں عدلیہ کی بحالی کے لئے لاہور سے روانہ ہوا، قافلہ گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ آرمی چیف جنرل کیانی کی کال آ گئی کہ حکومت عدلیہ کی بحالی پر رضا مند ہو گئی ہے۔ لانگ مارچ یا دھرنے ابھی تک حکومتوں کو گرانے یا جھکانے کے حوالے سے موثر ترین ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ دھرنا شروع ہو جائے تو اُسے ختم کرنا یا اُسے ہٹانا انتظامیہ اور حکومت دونوں کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ خون خرابہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنے والوں کی شرائط سخت اور ناقابلِ قبول بھی ہوں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ اُنہیں تسلیم کر لیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایسے اتفاق کی ضرور ت ہے کہ حکومت کی مدت ایک سال کم کر دی جائے۔ میثاقِ جمہوریت میں بھی چار سالہ مدت کی نشاندہی کی گئی تھی مگر ساتھ ہی اگلے الیکشن کے غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ اپوزیشن کو اِس بار ایسی ضمانتیں دی جائیں کہ وہ بااعتماد ہو کر اگلے الیکشن کےلئے میدان میں اُتریں۔
Credits Urdu Points