ہریانہ میں دلت خواتین ،لڑکیوں کے ریپ کے 40 واقعات میں سے صرف 10 فیصد میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں ، رپورٹ
ممبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین – این این آئی۔ 25 نومبر2020ء) محققین نے کہا ہے کہ شمالی بھارت میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے مردوں کی جانب سے نچلی ذات دًلت کی خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ عام طور پر سزا سے بھی بچ جاتے ہیں کیونکہ متاثرہ خواتین دباؤ میں آکر کیسز واپس لے لیتی ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کے دو گروپوں ’اِکویلیٹی ناؤ‘ اور’سوابھیمان سوسائٹی‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ریاست ہریانہ میں دلت خواتین اور لڑکیوں کے ریپ کے 40 واقعات میں سے صرف 10 فیصد میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ یہ وہ واقعات تھے جن میں متاثرین کو قتل کردیا گیا یا ان کی عمریں 6 سال سے کم تھیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تقریباً 60 فیصد کیسز میں متاثرین نے کیس واپس لے لیا اور عدالتی نظام کے باہر ہی تصفیہ کرلیا جس کے فیصلے عموماً پنچائیت سناتی ہیں، جس سے متاثرین کو انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد ترک کرنے پر مجبور کیا گیا۔
()
سوابھیمان سوسائٹی کی بانی مًنیشا مًشال نے بتایا کہ متاثرین کو دھمکایا اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے، ان کے خاندان کو بیدخل کردیا جاتا ہے اور ان پر خاموش رہنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے متاثرین کو اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جانیں خطرے میں ڈالنی ہوں گی۔ہریانہ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل منوج یادوا نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے لاعلم ہیں جبکہ ریاست میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے ‘زیرو ٹالرینس’ کی پالیسی ہے۔انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا کہ اونچی ذات کے مرد اکثر جنسی تشدد کو ذات پات اور صنفی درجہ بندی کو تقویت دینے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں، جس کے تحت بھارت کی تقریباً 20 کروڑ نفوس پر مشتمل دًلت برادری کو نچلی ذات میں شمار کیا جاتا ہے۔رپورٹ میں ملک میں 2012 کے خوفناک گینگ ریپ کے واقعے کے بعد ریپ کے خلاف متعارف کرائے گئے سخت قوانین کے باوجود دلت برادری کو انصاف کے حصول میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔رپورٹ میں ستمبر میں دلت برادری کی لڑکی کی مبینہ گینگ ریپ کے بعد موت کے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔اکویلیٹی ناؤ کی ڈائریکٹر یوریشیا جیکی ہًنٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ دًلت خواتین کے جسموں کو ذات پات کی بالادستی رائج کرنے اور خواتین کو ‘ان کے مقام’ پر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے قصورواروں کو معلوم ہے کہ انہیں سزا نہیں ملے گی کیونکہ نظام کا ہر حصہ ان کے حق میں فیصلہ دے گا اور اس سے ایسا ماحول قائم ہوتا ہے جس میں خواتین کے ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا کہ تقریباً 90 فیصد کیسز میں کم از کم ایک ملزم کا تعلق اونچی ذات سے ہوتا ہے اور وہ دیگر ساتھی ملزمان کے ساتھ مل کر گینگ ریپ اور کئی واقعات میں قتل بھی کرتا ہے۔
متعلقہ عنوان :
Credits Urdu Points