()
اس سے قبل جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی اس بات کی خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر ایران 2015کے معاہدے کے تحت دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر پروگرام کی بات مان لیتا ہے تو اس کے ساتھ بات چیت کی جا سکتی ہے۔اگرچہ ابھی تک آفیشلی طور پر یورپی ممالک اور امریکہ کی نئی انتظامیہ کے درمیان بات چیت شروع نہیں ہوئی مگر نیوکلیئر پروگرام کی روک تھام اور ایران کے معاشی سانس بحال کرنے کے لیے تینوں یورپی ممالک تیار ہو چکے ہیں اور اپنا کام مکمل کر چکے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر صدر ٹرمپ کی طرف سے ایران پر لگائی گئی پابندیاں ہٹائی جا سکیں۔تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر امریکہ یورپی ممالک کی سفارشات مانتے ہوئے ایران کے ساتھ معاہدہ بحال کرتا ہے تو خطے کے حالات کیا رخ اختیارکریں گے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف اچانک جنگ کا اعلان کر دیتا ہے تو ا س صورت میں تیسری عالمی جنگ کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کیا ردعمل دیں گے ا ور اسرائیل کہاں کھڑا ہو گا۔
Credits Urdu Points