- مصنف, روحان احمد
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاجی مظاہرے کے دوران ڈی چوک پر کنٹینرز پر موجود ایک شخص کو سکیورٹی اہلکار نیچے دھکا دے رہے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر راستہ روکنے کے لیے رکھے گئے کنٹینرز کی چھت پر ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور ایسے میں ڈھالیں اور ڈنڈے پکڑے چار رینجرز اہلکار اس کے پاس آتے ہیں۔
ایسے میں ایک رینجرز اہلکار اس شخص کو دھکے دیتا ہے اور اس نتیجے میں پہلے یہ شخص خود کو بچانے کے لیے کنٹینر کا کونا پکڑ کر لٹک جاتا ہے اور چند ہی سیکنڈز بعد نیچے گر جاتا ہے۔
یہ ویڈیو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ واٹس ایپ گروپس میں بھی گردش کر رہی ہے۔ بی بی سی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز، تصاویر اور وہاں موجود ایک عینی شاہد کے بیان کی مدد سے اس شخص کے گرنے کے واقعے کی تصدیق کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا؟
تصاویر فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے گیٹی پر دو تصاویر موجود ہیں جو کہ 26 نومبر کو بنائی گئی ہیں اور ان تصاویر میں ایک شخص کو کنٹینر پر نماز پڑھتے ہوئے اور رینجرز اہلکاروں کو اس کینٹینر پر ان کے قریب کھڑے دیکھا جاسکتا ہے۔
جبکہ گیٹی پر موجود ایک اور تصویر میں اس شخص کو کینٹینر سے نیچے لٹکے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور بظاہر رینجرز اہلکار اسے کنٹینرز سے نیچے دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بی بی سی نے گیٹی پر موجود ان تصاویر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کا تقابلی جائزہ لیا اور یہ بات سامنے آئی کہ ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے کے دوران رینجرز اہلکاروں کی جانب سے کینٹینر پر سے ایک شخص کو نیچے دھکیلنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔
عینی شاہد کا کیا کہنا ہے؟
بی بی سی نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ایک فوٹوگرافر سے بات چیت کی ہے جو 26 نومبر کو ڈی چوک پر موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر فوٹوگرافر جو اس واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ شخص کینٹینرز کے اوپر چڑھا ہوا تھا۔ پہلے تو یہ نماز پڑھ رہا تھا اور پھر اس نے دعا مانگنا شروع کردی۔‘
ان کے مطابق اس وقت تین، چار رینجرز والے وہاں پہنچے اور انھوں نے اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
فوٹوگرافر نے بتایا کہ ’جب وہ ان کے ہاتھ نہیں آیا تو رینجرز نے اس (شخص) کو تھوڑا سے دھکا دیا اور پھر یہ نیچے جا کر گِرا ہے۔‘
فوٹوگرافر سے جب یہ یوچھا گیا کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا شخص کینٹینر سے گرنے کے بعد اٹھ کر بیٹھا تھا، وہ گرنے کے بعد کس حالت میں تھا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت علاقے میں موجود ایک عمارت میں ایسی جگہ موجود تھے جہاں سے وہ اسے گرنے کے بعد دیکھ نہیں پائے تھے۔
پاکستانی حکومت اور پی ٹی آئی کا مؤقف کیا ہے؟
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایسے دعوے کیے گئے کہ رینجرز کے دھکا دینے کے باعث یہ شخص کینٹینر سے گر کر ہلاک ہو گیا تاہم بی بی سی اس شخص کی شناخت یا اس واقعے میں اس کی مبینہ ہلاکت کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
بی بی سی نے اس ویڈیو کے متعلق جب پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کئی کارکن تاحال لاپتا ہیں، تقریباً نو افراد براہِ راست گولی لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں 40 لاشیں موجود ہیں۔
تاہم بی بی سی ان کے اس دعوے کی بھی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
واضح رہے کہ رینجرز ایک پیراملٹری فورس ہے جو کہ وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔
بدھ کو میڈیا سے بات چیت کے دوران پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ڈی چوک پر ایک کنٹینر کے اوپر نماز پڑھتے ہوئے ایک کارکن کو رینجرز کی جانب سے دھکا دے کر نیچے پھینکا گیا۔ کیا آپ اس عمل کی مذمت بھی کرتے ہیں یا نہیں؟‘
وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے اسے گول مول بیان کیا اور کہا کہ ’پہلی بات جب سے وہ (پی ٹی آئی مظاہرین) بھاگے ہیں، اس کے بعد ایک دم پروپیگنڈا شروع ہوگیا کہ 33 لاشیں ایک ہسپتال میں ہیں اور پتا نہیں کتنی لاشیں ایک اور ہسپتال میں ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے لوگ صبح سے ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں کہ وہ لاشیں ڈھونڈ لیں، یا کل بھی آئیں اور چیک کر لیں۔‘
خیال رہے پی ٹی آئی کی جانب سے خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن میں سینکڑوں کارکنان ہلاک ہوئے ہیں۔
بی بی سی اردو ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ابھی تک انھیں کسی نے بھی ہلاک ہونے والے شخص کا نام یا دیگر تفصیلات نہیں دیں۔
تاہم گذشتہ روز اسلام آباد کے دو سرکاری ہسپتالوں پولی کلینک اور پمز نے بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ وہاں چھ لاشیں لائی گئی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ پولی کلینک میں لائی جانے والے لاشوں پر گولیوں کے نشان تھے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے احتجاج کے تناظر میں تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پانچ اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
Credits BBC Urdu