- مصنف, زبیر اعظم
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
’مجھے چکر سے آتے تھے۔ ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا تو وہ دوائی دے دیتے تھے لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ پھر ایک ڈاکٹر نے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ مسئلہ گردوں کا ہے اور ڈائلیسس کروانا پڑے گا۔‘
لاہور کے محمد شاہد کے لیے ڈاکٹر کا یہ جملہ ایک بھاری پتھر کی طرح تھا۔ ’مجھے بتایا گیا کہ میرے گردے صرف 20 فیصد کام کر رہے ہیں۔‘
ایسے میں طبی طور پر ان کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ گردے کا ٹرانسپلانٹ کرواتے یعنی اپنے کسی خونی رشتے سے گردے کے عطیہ لیتے جسے ایک مہنگے آپریشن کے بعد ان کے جسم میں پیوست کیا جاتا۔ لیکن ایک چھوٹی سی دکان چلانے والے شاہد کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔
دوسرا راستہ ڈائلیسس کا تھا۔ لیکن یہاں ایک دقت تھی۔ شاہد بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہسپتال میں ڈائلیسس کے عام طریقے، ’ہیمو ڈائلیسس‘ جس میں خون کو ایک مشین کے ذریعے نکال کر صاف کیا جاتا ہے، کو ہوتے ہوئے دیکھا تو انھیں محسوس ہوا کہ ’یہ کافی تکلیف دہ عمل ہے۔‘
پھر انھیں گردوں کی صفائی کے ایک اور طریقے کا علم ہوا جس میں نہ تو تکلیف تھی اور نہ ہی انھیں ہسپتال جانا پڑتا تھا۔
یہ طریقہ تھا ’پیریٹونیئل ڈائلیسس‘ کا جو پاکستان میں زیادہ عام نہیں ہے اور نہ ہی لوگ اس سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں اگرچہ کہ یہ بہت عرصے سے دستیاب ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ نہ صرف یہ طریقہ زیادہ مفید ہے بلکہ ایسے مریضوں کے لیے ہی بنا ہے جو گردوں کے ناکارہ ہونے کے باوجود عام زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے گھر پر رہتے ہوئے خود ہی ناکارہ گردوں یعنی خون کی صفائی کر سکتے ہیں۔
یہ طریقہ ہے کیا؟ اس میں خون کی صفائی کیسے ہوتی ہے اور ہسپتال کیوں نہیں جانا پڑتا؟ اس تحریر میں ہم نے طبی ماہرین کے ساتھ ساتھ چند ایسے افراد سے بھی بات کی جو پیریٹونیئل ڈائلیسس کی مدد سے زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں گردوں کا مرض کتنا عام ہے اور ڈائلیسس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
پاکستان میں گردوں کا بڑھتا ہوا مرض
ڈاکٹر نعمان تعریف ماہر امراض گردہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈائلیسس مشین تیار کرنے والی کمپنی بائیونکس کے چیف مڈیکل آفیسر ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں گردوں کا مرض بہت پھیلا ہوا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں تقریبا 35 لاکھ افراد ذیابطیس، ہائپر ٹینشن، پتھریوں سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر گردوں کے مرض سے متثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’گردوں کے فیل ہو جانے کا خوف بھی زیادہ ہے۔ لوگوں کو کیسنر سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا یہ سن کر لگتا ہے کہ ان کے گردے فیل ہو گئے ہیں۔‘
اس مرض کی شدت میں گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جن کا کام ہوتا ہے کہ خون سے اضافی پانی اور غیر ضروری اجزا، جیسے یوریا، پیشان کے زریعے انسانی جسم سے باہر نکال دیں تاکہ وہ جسم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ ایسے مریضوں کے پاس ایک راستہ ٹرانسپلانٹ کا ہوتا ہے لیکن یہ مہنگا آپریشن بھی ہے اور ہر کسی کے لیے گردے کا انتظام کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
مالی استطاعت اور گردے کا عطیہ ہونے کے باوجود کئی مریضوں میں طبی وجوہات کی بنا پر بھی ٹرانسپلاںٹ ممکن نہیں ہوتا۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ 65 سال سے زیادہ عمر میں گردوں کا ٹرانسپلاںٹ پاکستان میں نہیں کیا جاتا۔
ڈاکٹر نعمان کے مطابق ہر سال تقریبا تین لاکھ مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو ڈائلیسس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے 99 فیصد ہیمو ڈائلیسس کرواتے ہیں۔ ’اس طریقے میں مریض کے جسم سے خون ایک نالی کی مدد سے نکال کر ایک مشین میں جاتا ہے جو وہی کام کرتی ہے جو فعال گردے کرتے ہیں یعنی اضافی پانی اور غیر ضروری اجزا کی صفائی۔‘
’ایسے میں مریضوں کو عام طور پر ایسی خوراک سے پرہیز کرنا ہوتی ہے جو خون میں یوریا اور کریاٹینن کا اضافہ کرتی ہیں جبکہ پانی کی مقدار پر بھی حد لگائی جاتی ہے تاکہ جسم میں زیادہ پانی جمع نہ ہو جائے۔‘
دوسری جانب پیریٹونیئل ڈائلیسس کو ’بلڈ لیس‘ یا خون کے بغیر ہونے والا ڈائلیسس بھی کہا جاتا ہے۔
پیریٹونیئل ڈائلیسس کیا ہے اور کیسے ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نعمان تعریف نے بتایا کہ ’مریض کے پیٹ کے اندر ایک پلاسٹک کی پائپ ڈال دی جاتی ہے جو جسم کا مستقل حصہ بن جاتی ہے اور دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ بھی جسم میں رہ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹیوب کسی قسم کا درد نہیں کرتی اور کچھ عرصے بعد جلد کا ہی حصہ بن جاتی ہے۔‘
پیریٹونیئل ڈائلیسس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’پیٹ کے اندر کی جانب ایک جھلی ہوتی ہے جسے ’پیریٹونیئم‘ کہتے ہیں، اور اس کے اندر خون کی نالیاں ہوتی ہیں۔ اس طریقے کے تحت اس پائپ کے ذریعے مریض کے پیٹ کے اندر خصوصی پانی ڈالا جاتا ہے جو یوریا، کریاٹینین اور دیگر فاسد مادے خون کی نالیوں سے کھینچ کر جمع کر لیتا ہے۔‘
’یہ پانی دو گھنٹے یا ضرورت کے حساب سے، پیٹ کے اندر رہنے دیا جاتا ہے اور پھر اسی پائپ کے ذریعے باہر نکال لیا جاتا ہے۔ جب پانی باہر نکلتا ہے تو اس کی رنگت پیلی ہوتی ہے جیسے پیشاب کی رنگت ہوتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ جسم سے فاسد مادے باہر نکل آئے ہیں۔‘
اس طریقے کو مریض کے مرض کو دیکھتے ہوئے دہرایا جاتا ہے اور یہ ڈاکٹر طے کرتے ہیں کہ کتنی بار یہ عمل دہرانا ہے۔ تاہم ڈاکٹر نعمان کے مطابق پانی ڈالنے اور نکالنے کا عمل 15-20 منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا اور ایک بار پانی اندر ڈال دیا جائے تو اس کے بعد مریض اپنی مرضی سے کام کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر نعمان تعریف نے بتایا کہ ’پیریٹونیئل ڈائلیسس کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک مینوئل جس میں دن میں تین یا چار بار پانی پیٹ میں ڈال کر نکالا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ مشین کے ذریعے ہوتا ہے جس میں مریض پیٹ کی ٹیوب کو مشین سے جوڑتے ہیں، پھر مریض چاہے خود سو جائے، مشین خود ہی سارا عمل کر لیتی ہے۔ یہ سارا عمل نیند کے دوران مکمل ہو جاتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں مریض کو کوئی درد نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس طریقے کو صرف ڈاکٹر کے مشورے اور تفصیلی جائزے کے بعد ہی اپنانا چاہیے اور کوئی مریض خود سے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ کس طریقے سے ڈائلیسس کروائے گا۔
پیریٹونیئل ڈائلیسس کا فائدہ کیا ہے؟
ڈاکٹر نعمان تعریف کہتے ہیں کہ ’اس طریقے میں انسان کے جسم کے خون کو باہر نہیں نکالا جاتا، نہ ہی مریض کے جسم میں نالیاں لگائی جاتی ہیں جن کے بغیر ہیمو ڈائلیسس ممکن نہیں۔‘
’اگر آپ کسی ایسے مریض کو دیکھیں جس کا پیریٹونیئل ڈائلیسس ہو رہا ہو، تو شاید آپ یہ اندازہ بھی نہ لگا سکیں کہ اس کے گردے کام نہیں کر رہے ہیں۔‘
’اس طریقے میں مریض بہتر کھا پی سکتے ہیں، ان کی جلد کی رنگت بہتر ہوتی ہے، جسمانی طاقت زیادہ ہوتی ہے اور چلنا پھرنا آسانی سے ممکن ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہیمو ڈائلیسس کے مقابلے میں پیریٹونیئل ڈائلیسس کیوں کہ گھر پر ہوتا ہے اور کھانے پینے پر اتنی زیادہ پابندی نہیں ہوتی، تو نفسیاتی طور پر بھی یہ مریض پر بہتر اثر ڈالتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مشین کے ساتھ پیریٹونیئل ڈائلیسس زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ اس میں مریض کو خود کچھ نہیں کرنا ہوتا اور وہ نیند کے دوران مشین کی مدد سے خون کی صفائی کر سکتا ہے۔ یہ ان مریضوں کے لیے بہت مفید ہے جو دن میں نوکری یا کام پر جانا چاہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر احد قیوم پیریٹونیئل ڈائلیسس اکیڈمی آف پاکستان کے شریک بانی ہیں اور انٹرنیشنل سوسائٹی آف پیریٹونیئل ڈائلیسس میں پاکستان کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر احد قیوم نے بتایا کہ اس طریقے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مریض اپنی سہولت اور اپنے وقت کے حساب سے ڈائلیسس کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں ڈائلیسس کروانے والے بہت سے مریضوں کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی اور ایسے میں وہ لوگ جن کو معاش کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، ان کے لیے پیریٹونیئل ڈائلیسس آسانی پیدا کرتا ہے جبکہ ہیمو ڈائلیسس میں تین سے چار دن ہسپتال آنے جانے اور عمل میں پورا دن لگ جاتا ہے۔‘
پیریٹونیئل ڈائلیسس اور ہیمو ڈائلیسس میں کیا فرق ہوتا ہے؟
ڈاکٹر احد قیوم کہتے ہیں کہ ’ہیمو ڈائلیسس میں ایک مصنوعی جھلی کو استعمال کیا جاتا ہے جسے طبی اصطلاح میں ڈائلائزر کہتے ہیں جبکہ دوسری جانب پیریٹونیئل ڈائلیسس میں انسان کے جسم میں موجود قدرتی جھلی کو استعمال کرتے ہوئے خون صاف کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہیموڈائلیسس کے عمل کے دوران مریض کے دل پر زور ڈلتا ہے تو یہ عمل اس حساب سے کسی حد تک نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے پیریٹونیئل ڈائلیسس چھوٹے اور کم عمر بچوں سے لے کر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ دو دن کے بچے اور سو سال کی عمر کے شخص بھی یہ طریقہ اپنا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر احد قیوم کہتے ہیں کہ ’پیریٹونیئل ڈائلیسس میں خون کا عمل دخل نہیں ہوتا جس طرح سے ہیمو ڈائلیسس میں ہوتا ہے۔ خون جسم سے باہر نہیں آتا تو اسی لیے اس میں انفیکشن ہونے، جیسا کہ ہیپاٹائٹس، کے امکانات کم ہوتے ہیں۔‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر احد قیوم کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں طبی طور پر انفیکشن پروٹوکولز یعنی انفیکشن سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا، اسی لیے انفیکشن زیادہ ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک اور سادہ سا فرق یہ ہے کہ پیریٹونیئل ڈائلیسس میں خون باہر نہیں آتا تو اسی لیے سوئیوں کا استعمال بھی نہیں ہوتا۔‘
’کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘
لاہور میں مغلپورہ کے رہائشی عبدالرحیم کو گزشتہ سال علم ہوا کہ ان کے گردے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔
53 سالہ عبدالرحیم لاہور کے ڈیفینس کلب میں بطور اسسٹنٹ مینجیر اکاوئنٹس کام کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ذیابطیس کے ساتھ بلڈ بریشر اور پھر تیز بخار ہوا جس کے بعد معائنہ کروایا تو پتہ چلا کہ گردوں میں مسئلہ ہے۔
انھوں نے ڈاکٹر کی تجویز پر پیریٹونیئل ڈائلیسس کو چنا اور اب وہ اپنے گھر میں ہی ایک مشین کے ذریعے ڈائلیسس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ڈائلیسس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اپنی نوکری کرنے میں اس طریقے کی وجہ سے کسی مشکل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔
محمد شاہد بتاتے ہیں کہ اس طریقے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کو کوئی تکلیف، یا درد، نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہیمو ڈائلیسس سے مجھے خوف آتا تھا کہ نالیاں پڑتی ہیں۔ پانی والا طریقہ اچھا ہے، اس کا فائدہ ہے، نقصان نہیں ہے۔‘
ان کے گھر پر اب ایک مشین موجود ہے جو ان کے گردوں کی صفائی کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
یہ طریقہ علاج پاکستان میں باآسانی دستیاب کیوں نہیں؟
ڈاکٹر احد قیوم نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کیوں کہ دنیا میں پہلی ترجیح پیرٹونیئل ڈائلیسس ہوتی ہے کیوں کہ اس کے فوائد زیادہ ہیں۔‘
’پاکستان میں آگاہی کی کمی کے ساتھ ساتھ اس بارے میں غلط خیالات موجود ہیں اور لوگ کہیں گے کہ اس میں انفیکشن ہو جاتا ہے حالانکہ بار بار طبی طور پر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اگر طریقہ درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو پیٹ کی انفیکشن بڑا مسئلہ نہیں۔‘
ڈاکٹر احد قیوم کہتے ہیں ’پانچ سال کے دوران بہت سے لوگوں نے اس طریقے کو اپنایا ہے لیکن دنیا میں جو شرح ہے ہم اس کے قریب نہیں پہنچے۔‘
’جو لوگ ہماری صحت کی پالیسی بنا رہے ہیں، انھیں اس پر سوچنا چاہیے کہ کیسے اس طریقے کو بھی سستا اور عام کیا جائے۔‘
اور یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیریٹونیئل ڈائلیسس زیادہ مہنگا عمل ہے؟
ڈاکٹر احد قیوم کہتے ہیں کہ ’اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہیمو ڈائلیسس میں ایسے بہت سے خرچے ہوتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے۔ پیریٹونیئل ڈائلیسس کروانے والے نے ہسپتال جانا ہی نہیں ہے تو اس کا ٹرانسپورٹ کا کوئی خرچہ نہیں ہونا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پیریٹونیئل ڈائلیسس میں مریضوں میں خون کی قلت نہیں ہوتی جبکہ دوسری جانب ہیمو ڈائلیسس میں جو مہنگے مہنگے ٹیکے لگتے ہیں، ان کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہیمو ڈائلیسس بھی سستا نہیں ہے۔‘ تاہم کس مریض کو کتنا خرچ اٹھانا ہو گا، یہ معاملہ علاج کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
گردوں کے مرض سے کیسے بچا جائے؟
ایسے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر عمر کے افراد میں گردوں کے بڑھتے ہوئے مرض سے کیسے بچا جائے؟
ڈاکٹر نعمان تعریف کہتے ہیں کہ بنیادی وجہ ذیابطیس اور بلڈ پریشر ہے۔ ’اس کے علاوہ پاکستان کے وہ علاقے جو زیادہ گرم ہوتے ہیں اور جہاں پانی کی کمی ہوتی ہے، وہاں پتھریوں کی شکایات زیادہ ہوتی ہیں جو گردوں کے مرض کی وجہ بنتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک اور بڑی وجہ درد کی ادویات بھی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ درد کی دوایاں خود ہی کھاتے رہتے ہیں، تھوڑا سا کچھ ہوا تو خود ہی دوائی کھا لی۔ پھر پتہ نہیں چلتا اور آہستہ آہستہ گردے خراب ہوتے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر نعمان تعریف کے مطابق گردوں کے امراض سے بچاؤ کے لیے بلڈ پریشر پر قابو رکھنا اور ساتھ ہی ساتھ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے اپنی شوگر پر کنٹرول رکھنا ضروری ہے۔
’کھانے پینے میں نمک کم رکھیں، باہر کے کھانوں اور سافٹ ڈرنکس سے پرہیز کریں، کیوں کہ نوجوان نسل میں انرجی ڈرنکس کا زیادہ استعمال بھی بلڈ پریشر کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہی ہیں۔‘
Credits BBC Urdu