- مصنف, محمد کاظم اور محمد زبیر خان
- عہدہ, بی بی سی
’چھوٹا بھائی شادی کے لیے پیسے جمع کرنے کی غرض سے محنت مزدوری کرنے پنجگور گیا تھا۔ دو ماہ بعد اس کی شادی ہونی تھی۔ ہم تیاریوں میں مصروف تھے کہ ہمیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔ گھر کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہو گئی ہیں۔‘
صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان کے علاقے شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے محمد حنیف کے چھوٹے بھائی محمد شفیق ان سات افراد میں شامل تھے جنھیں نامعلوم افراد نے سینچر کی شب بلوچستان کے شہر پنجگور میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
پنجگور پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’مسلح افراد نے انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیاں مار دیں۔ ان میں سے صرف ایک بچ گیا جبکہ سات افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔‘
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے محمد ساجد، محمد خالد، محمد سلمان، محمد افتخار، محمد شفیق، محمد رمضان اور محمد فیاض کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا اور مقتولین آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔
پنجگور پولیس کے ایس ایچ او ظہیر بلوچ کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد محنت کش تھے جو علاقے میں لوگوں کے مکان تعمیر کرتے تھے۔ ’یہ لوگ ایک جگہ پر کام نہیں کرتے تھے بلکہ مختلف علاقوں میں کام کرتے تھے لیکن ان کی رہائش ایک جگہ پر تھی جہاں وہ رات کو جمع ہوتے تھے۔‘
واقعے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والے بلال نامی مزدور نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’دو مسلح افراد دیوار پھلانگ کر اس مکان میں داخل ہوئے جہاں یہ رہائش پذیر تھے۔ جس وقت مسلح افراد وہاں پہنچے تو یہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے۔‘
’حملہ آوروں نے آتے ہی آٹھوں افراد سے کہا کہ وہ اپنا منہ دیوار کی طرف کر کے ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں۔ جب یہ لوگ کھڑے ہو گئے تو انھوں نے ان پر اندھادھند فائرنگ کی۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق اس واقعے میں اگرچہ بلال بہت زیادہ زخمی نہیں ہوا تھا لیکن ’موت کا خوف ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔‘
’بلال کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ تھوڑی دیر بعد جب سنبھلا تو اس نے پولیس اہلکاروں کو حملے کے بارے میں یہ معلومات دیں۔‘
اہلکار نے بتایا کہ سی ٹی ڈی نے اس واقعے کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم یہ ایک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔
اگرچہ خدابادان کے علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں بدامنی کے ایسے واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔
پنجاب کے جنوبی اضلاع سے کارکنوں اور مزدوروں کی قابلِ ذکر تعداد کام کی تلاش میں بلوچستان کا رخ کرتی ہے اور گذشتہ ایک برس کے دوران بلوچستان میں پنجاب سے تعلق والے ایسے افراد کی ہلاکت کا یہ چوتھا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل اگست میں تربت کے علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان میں سوار 22 افراد کو شناخت کے بعد ہلاک کیا تھا جن میں سے 17 کا تعلق پنجاب سے تھا۔
رواں سال ہی مئی کے مہینے میں ضلع گوادر کے علاقے سربندن میں حجام کی دکان پر فائرنگ کے واقعے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات جبکہ اکتوبر 2023 میں گوادر سے متصل ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں چھ مزدور ہلاک ہوئے تھے۔
پنجگور میں ہلاک ہونے والے محمد شفیق کے بھائی محمد حنیف نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ چار بھائی ہیں اور شفیق ان میں تیسرے نمبر پر تھا۔
’بھائی کی دو ماہ بعد شادی ہونی تھی اور وہ یہاں سے اتنی دور اس لیے گئے تھے تاکہ محنت مزدوری کر کے شادی کے لیے کچھ پیسے جمع کر سکیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’بھائی سے ایک ہفتے پہلے میری فون پر بات ہوئی تھی اور انھوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ شادی کی تاریخ طے ہوئی ہے یا نہیں ہوئی جس پر میں نے انھیں بتایا تھا کہ دو مہینے بعد آپ کی شادی ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گھر والے اور خاندان کے دیگر افراد بھائی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ کل رات ہمیں ان کی موت کی خبر مل گئی۔ جس گھر میں خوشیوں کی تیاریاں ہو رہی ہوں اور وہاں اس شخص کی موت کی خبر آجائے جو کہ خوشی کا مرکز ہو تو وہاں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سوگ اور غم کا کیا عالم ہو گا لیکن ہم غم کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارا بھائی تو واپس نہیں آ سکتا۔‘
مقتولین کے رشتہ دار مراد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ مرنے والوں کا تعلق شجاع آباد کے قریب واقع دو دیہات راجہ پور کیگاون اور چڈیڑ موڑ سے تھا اور محمد شفیق کے علاوہ چار دیگر مقتولین کی بھی آنے والے مہینوں میں شادیاں طے تھیں۔
مراد اسلم کے مطابق ’محمد ساجد پہلے ہی سے بلوچستان میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ اس کا بڑا بھائی وہاں کا ٹھیکیدار تھا جبکہ محمد فیاض محمد ساجد کا بہنوئی بھی تھا اور وہ اسے پہلے ہی وہاں لے گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’خالد، سلمان، افتخار، شفیق اور رمضان شجاع آباد میں ہی مقامی طور پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ عید پر محمد ساجد آیا تو ان پانچوں کے والدین نے اس سے کہا کہ اب ان کی شادیاں قریب ہیں اور اس پر اخراجات بھی آنے ہیں تو وہ ان سب کو اپنے ساتھ بلوچستان لے جائے جہاں پر اچھی مزدوری مل جاتی ہے۔‘
’یہ لوگ عید کے بعد چلے گئے تھے اور وہاں اپنی شادیوں کے لیے رقم جمع کر رہے تھے۔ چونکہ ان کے رشتے بھی خاندان میں ہی ہوئے تھے تو دونوں گاؤں میں یہ بات چل رہی تھی کہ جب یہ لوگ آئیں گے تو گاؤں میں ایک کے بعد ایک شادی ہو گی اور جشن کا سماں ہو گا۔‘
مراد اسلم کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں ’عموماً شادیاں نومبر میں موسم میں بہتری کے بعد ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ مارچ تک جاری رہتا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ مقتولین نے صرف شادیوں کے اخراجات کی وجہ سے بلوچستان کا رخ کیا تھا اور شادی کے بعد ان کا بلوچستان واپس جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
’وہ پانچوں یہ ہی کہتے تھے کہ شادی کے بعد کوشش کریں گے کہ ملتان میں کوئی کام مل جائے تو زیادہ اچھا ہو گا مگر سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے۔‘
مقتولین کے ایک اور رشتہ دار ساجد علی شجاع آباد ہی میں راج مستری کا کام کرتے ہیں اور مارے جانے والوں میں شامل محمد رمضان کے بہنوئی بھی ہیں۔ ساجد علی کا کہنا تھا کہ جس رات وقوعہ ہوا اس رات ان سب لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں بات کی تھی۔
ان کے مطابق ’محمد رمضان نے بھی اپنی بہن سے لمبی چوڑی بات کی۔ بہن نے اسے بتایا تھا کہ اس کی شادی کی کیا تیاریاں ہو رہی ہیں اور ممکن ہو سکے تو تیاریوں کے لیے کچھ رقم بھیج دے۔ محمد رمضان نے اپنی بہن کو تسلی دی تھی کہ ٹھیکیدار جلد ہی پیسے دے گا تو وہ رقم بھجوا دے گا۔‘
بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے پنجگور میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدورں کے قتل کی مذمت کی ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں ایک بار پھر ’دہشت گردوں نے غریب پاکستانی مزدوروں پر وار کیا اور بےگناہوں کا لہو گرانے والے بزدل اور انسانیت سے بےبہرہ ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد کب تک بلوں میں چھپ سکیں گے۔ ہم چن چن کر ان سے بےگناہ پاکستانیوں کے قتل کا حساب لیں گے۔‘
Credits BBC Urdu