- مصنف, ٹائسن کونٹے اور کورٹنی بیمبرج
- عہدہ, بی بی سی نیوز ماکینی اور لندن
اِساتا افریقی ملک سیر الیون میں بطور ایک سیکس ورکر کام کرتی ہیں اور وہ تنہا ہی اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔
اس مغربی افریقی ملک میں بطور سیکس ورکر کام کرنے والی اِساتا کی زندگی کسی خوفناک خواب سے کم نہیں۔ اس پیشے سے منسلک ہونے کے بعد انھوں نے تشدد سہا، انھیں لوٹا گیا، دو مرتبہ اغوا کیا گیا ہے اور ایک دوسرے ملک سمگل بھی کیا گیا۔
اس سب کے دوران وہ سڑک پر فروخت ہونے والی ایک خطرناک منشیات ’کُش‘ کی بھی عادی ہو گئیں تھیں جس نے سیرالیون کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
بی بی سی افریقہ آئی گذشتہ چار برسوں سے سیکس ورکرز کے ایک گروہ کی زندگیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے جو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ماکینی نامی شہر میں رہتے ہیں۔
یہ شہر ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں بڑی تعداد میں ہیرے پائے جاتے ہیں۔ یہ وہی ہیرے ہیں جو سیرالیون میں خانہ جنگی کا سبب بنے اور اس تنازع کے اثرات آج بھی اس مغربی افریقی ملک میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اِساتا ماکینی میں رہائش پزیر ان سینکڑوں سیکس ورکرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں تمام قربانیاں اپنی بیٹی کے لیے دے رہی ہوں۔ میں ان سڑکوں پر بہت تکلیف سے گزر چکی ہوں۔‘
وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں کلب میں ایک شخص سے ملی۔ اس نے میرے کپڑے پھاڑ دیے۔ اس نے میرے زیرِجامہ سے پیسے نکال لیے۔ میں خود کو بچانے کے لیے لڑ رہی تھی۔ اس نے میرے سر پر اپنی بندوق سے وار کیا، وہ مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘
یہ ایک خطرناک زندگی ہے اور کچھ خواتین کو اس دوران ایچ آئی وی کا مرض بھی لاحق ہوگیا ہے۔ کچھ سیکس ورکرز کو ماضی میں قتل بھی کیا گیا ہے۔
لیکن بہت ساری خواتین سمجھتی ہیں کہ ان کے پاس جسم فروشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
شہر کے ایک تاریک علاقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دو سیکس ورکرز نے بی بی سی افریقہ آئی کو بتایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں وہ کام کے غرض سے آتی ہیں۔
مابینیٹی نامی نوجوان خاتون نے ہمیں بتایا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں وہ روزانہ اپنی ساتھی سیکس ورکر کے ساتھ تقریباً 10 مردوں سے ملاقاتیں کرتی ہیں۔
ہر مرد انھیں ہر بار ایک ڈالر دیتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے پیسے کما رہی ہیں۔
مابینیٹی کے چھ بچے تھے لیکن ان میں سے تین کی موت ہوگئی اور باقی تین سکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے ایک بچے نے ابھی امتحانات دیے ہیں۔ اگر میں یہ کام نہیں کروں گی تو میں اس کے سکول کے اخراجات برداشت نہیں کرپاؤں گی۔ اس لیے میں تکلیف برداشت کرتی ہوں۔‘
سیرالیون میں ہزاروں خواتین سیکس ورک کی طرف گامزن ہو رہی ہیں۔ ان میں سے بہت ساری نوجوان خواتین وہ ہیں جو کہ خانہ جنگی کے سبب یتیم ہوگئیں۔
اس خانہ جنگی کے دوران تقریباً 50 ہزار افراد مارے گئے تھے اور 2002 میں اس کے اختتام تک تقریباً ملک کی آدھی آبادی اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکی تھی۔
فلاحی گروہوں کا کہنا ہے کہ معاشی حالات، ایبولا اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ نوجوان خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
سیر الیون میں جسم فروشی غیرقانونی نہیں لیکن وہاں اس شعبے سے منسلک خواتین کو تضحیک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حکومت اور معاشرے کی طرف سے ان کی کوئی مدد بھی نہیں کی جاتی۔
ہم 2020 میں اِساتا سے پہلی بار ملے تھے اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد انھیں ایک جرائم پیشہ گروہ نے اغوا کرلیا تھا اور پھر انھِیں گمبیا، سینیگال اور مالی میں جسم فروشی کے لیے مجبور کیا گیا۔
وہ مالی میں ایک فون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور انھوں نے اپنی کہانی بھی بی بی سی افریقہ آئی کے ساتھ شیئر کی تھی۔
انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ’جس طرح سے وہ ہمارے پاس آتے ہیں ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم انھیں قبول نہیں کریں گے تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔‘
’میں بہت تکلیف سے گزر رہی ہوں۔‘
بی بی سی افریقہ آئی کی ٹیم اِساتا کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور پھر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن نے اِساتا کی سیرالیون واپسی میں مدد کی تھی۔
اس واقعے کے بعد 2021 میں انھوں نے بطور سیکس ورکر کام کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن وہ اپنے اور اپنی بیٹی کے اخراجات اُٹھانے میں پریشانی کا سامنا کر رہی تھیں۔
ہمیں 2023 میں ایک بار پھر اِساتا کے بارے میں اطلاع ملی۔ وہ ’کُش‘ نامی منشیات کی عادی ہو کر ایک مرتبہ پھر جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہو گئی تھیں۔
کُش نامی منشیات سیرالیون ملک میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ ملک کے صدر کو اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔
نشے کی لت میں مبتلا ہونے کے بعد اِشاتا نے اپنے چار مہینے کے بیٹے کو بھی اپنی والدہ پوزیھ کے حوالے کردیا۔
پوزیھ کہتی ہیں کہ ’سڑک پر گذرنے والی زندگی نے انھیں اتنا ڈپریس کر دیا کہ وہ کُش کی عادی ہو گئیں۔‘
ناٹا بھی ایک تنہا ماں ہیں جن کی تین بیٹیاں ہیں۔
ہماری ان سے ملاقات ان کے گھر پر اس وقت ہوئی جب وہ کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے اچھی زندگیاں گزاریں۔ مجھے امید ہے کہ خُدا میری دعائیں سُنے گا۔‘
اس وقت ناٹا کی بیٹی اپنی والدہ کو میک اپ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ بڑے ہو کر وکیل بننا چاہتی ہیں تاکہ ’میں اپنی والدہ کی مدد کر سکوں۔‘
اسی علاقے میں ہماری ملاقات 10 سالہ روگیاتو سے ہوئی۔ ان کی والدہ جینا بھی ایک سیکس ورکر تھیں اور انھیں صرف 19 برس کی عمر میں 2020 میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اب وہ اپنی بوڑھی نانی کے ساتھ رہتی ہیں۔
روگیاتو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری والدہ اور والد مر چکے ہیں اور اب صرف میری نانی بچی ہیں۔ اب اگر میری نانی کی موت ہوجاتی ہے تو پھر میرے پاس سڑک پر بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔‘
’میں نہیں چاہتی کہ مجھے بھی سڑک پر قتل کر دیا جائے۔‘
جب ہم ناٹا سے دوبارہ ملنے گئے تو وہ بھی کُش کی لت میں مبتلا ہو چکی تھیں۔
وہ اپنی موجودہ حالت کے بارے میں کہتی ہیں کہ: ’میں اس حالت میں خوش نہیں ہوں لیکن میں اس بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہتی۔‘
’جب مجھے کچھ یاد آتا ہے تو میں روتی ہوں۔ اس لیے میں سب کچھ بھولنے کے لیے کُش کا استعمال کرتی ہوں۔‘
ان کی تینوں بیٹیاں اپنی والدہ کے نشے کی عادت کے سبب اپنی رشتے داروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
پھر جیسے ہی 2024 شروع ہوا ہم نے اِساتا کے حوالے سے ایک بُری خبر سُنی۔ انھیں ایک بار پھر خواتین کے ایک گروہ کے ساتھ مالی سمگل کر دیا گیا تھا۔
اس گروہ سے گھانا میں گھریلو ملازمت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پھر ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی اور جسم فروشی مالی میں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔
ہمیں فون پر اِساتا نے بتایا کہ ’میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ میں بھیک مانگتی ہوں، مجھے پچھتاوا ہے۔‘
وہ اپنے سفر کا احوال بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اس وقت فکرمند ہوئی جب ملازمت کا وعدہ کرنے والے شخص نے راستے میں چیک پوسٹوں سے بچنے کی کوشش کی۔
’اس نے ہمیں جوائے نامی نائجیرین خاتون کے حوالے کردیا۔‘
اِساتا کہتی ہیں کہ انھوں نے اس خاتون سے پوچھا: ’آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ ہمیں گھریلو ملازمت کے لیے گھانا لے جا رہے ہیں۔ کیا یہ گھانا ہے؟‘
اِساتا کہتی ہیں کہ جوائے نے انھیں جواب دیا: ’کیا ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ہم یہاں جسم فروشی کے لیے آ رہے ہیں؟‘
اِساتا مزید کہتی ہیں کہ نائجیرین خاتون نے انھیں کہا ’جاؤ اور پیسے کما کے لاؤ۔‘
سمگل کی جانے والی دیگر خواتین کی طرح اِساتا کو بھی کہا گیا کہ انھیں آزادی حاصل کرنے کرنے کے لیے سمگلروں کو ایک بڑی رقم ادا کرنا ہوگی۔
انھوں نے خواتین کو کہا کہ ان کی آزادی کی فی کس قیمت 1700 ڈالر ہے۔
اِساتا کو اتنے پیسے کمانے کے لیے سینکڑوں افراد کے ساتھ سیکس کرنا تھا۔ سمگلروں نے انھیں کہا کہ ان کے پاس اتنے پیسے جمع کرنے کے لیے صرف تین مہینے کا وقت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کا کہنا ہے کہ ہر سال بچوں سمیت سیرالیون سے ہزاروں افراد کو سمگل کیا جاتا ہے۔ کبھی انھیں اغوا کیا جاتا ہے اور کبھی انھیں کسی دوسرے ملک میں اچھی ملازمت کا جھانسہ دے کر سمگل کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد انھیں دیگر ممالک میں غیرملکیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے اور وہ جبری مزدوری یا جنسی استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان میں سے بہت سارے افراد اکثر دوبارہ کبھی اپنے ملک واپس بھی نہیں آ پاتے۔
لیکن اِساتا ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں جو کہ ماکینی واپس آئیں اور اب وہ اپنے دو بچوں اور والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔
Credits BBC Urdu