انڈیا کی بعض مساجد میں گنپتی کی مورتی اور ہندو مسلم بھائی چارے کی روایت

19
انڈیا کی بعض مساجد میں گنپتی کی مورتی اور ہندو مسلم بھائی چارے کی روایت


،تصویر کا ذریعہSarfaraj Sanadi/Yogesh Jiwaje

،تصویر کا کیپشنگوٹکھنڈی کی اس مسجد میں گنپتی نصب ہے (بائیں)/ دھیپن پور مسجد، کرندواڑ میں گنیش کی مورتی (دائیں)

  • مصنف, سمپت مورے
  • عہدہ, بی بی سی مراٹھی

انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے کچھ گاؤں میں ہندو مسلم ہم آہنگی کی ایک منفرد روایت دیکھی جا سکتی ہے جہاں چالیس سال سے زیادہ عرصے سے چند مساجد میں بھگوان گنیش کی مورتیاں نصب کی جاتی ہیں۔

گوٹکھنڈی نامی گاؤں میں نیو گنیش منڈل کا گنپتی ہر سال یہاں کی ایک مسجد میں دس دن تک نصب کیا جاتا ہے۔ یہ مسجد 44 سال پرانی ہے۔

اس گنپتی کے درشن کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں ہی بڑی تعداد میں آتے ہیں۔

مسجد میں اس گنیش کی کہانی 1961 میں شروع ہوتی ہے۔ اس گاؤں کے کچھ نوجوانوں نے مل کر گنپتی کو نصب کیا۔

یہ گنیش گاؤں کے مرکزی چوک میں تھا۔ اس گنیش کو نصب کرنے والوں نے بہت ہی جوش و خروش سے لیکن انتہائی سادہ انداز میں گنیش کو نصب کیا۔

لیکن یہ گنیش مسجد کے اندر کیسے گیا؟ گوٹکھنڈی گاؤں کے اشوک پاٹل نے ہمیں اس کے پیچھے کی کہانی سنائی ہے۔

’گنپتی بارش میں بھیگ رہا تھا‘

اشوک پال نے بتایا کہ ’گنیش کو سادہ انداز میں نصب کیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، گنیش کے لیے کوئی منڈپ نہیں تھا۔‘

’گنیش وتسو کا مطلب ہے برسات کا موسم۔ ایسی ہی ایک رات تیز بارش ہوئی۔ کوئی منڈپ یا کوئی اور انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گنیش کی مورتی بارش میں بھیگ گئی۔ گاؤں کی مسلم برادری کے ایک شخص نے اسے دیکھا۔ انھوں نے گنیش منڈل کے لوگوں کو بلا کر یہ خیال دیا۔‘

’اس کے بعد سب وہاں جمع ہو گئے۔ کیا کرنا ہے اس پر بحث ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی نظام پٹھان اور ان کے رشتہ داروں نے سبھی سے درخواست کی کہ وہ بارش سے بھیگے ہوئے گنپتی کی مورتی کو قریبی مسجد میں رکھیں۔‘

وہاں موجود سب لوگوں نے فیصلہ کیا اور گنپتی کی مورتی کو مسجد میں رکھ دیا گیا۔

اشوک پاٹل نے بتایا ’اس سال وسرجن تک بھگوان گنیش کی اس مسجد میں پوجا کی جاتی تھی۔ لیکن اس کے بعد اگلے سال گنپتی نہیں لگایا گیا۔‘

گوٹھ کھنڈی کی مسجد میں گنیش کی مورتی

،تصویر کا ذریعہSarfaraj Sanadi

،تصویر کا کیپشنگوٹکھنڈی کی مسجد میں گنیش کی مورتی

مسجد میں گنیش وتسو کی تیسری نسل

اشوک پاٹل کے والد بھی اس گنپتی کے بانیوں میں سے تھے۔ چنانچہ انھوں نے 1961 کا یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بتایا۔

انھوں نے بتایا کہ بعد میں 1986 میں گوٹکھنڈی گاؤں کے کچھ نوجوان پڑوسی گاؤں باوچی میں گنپتی تہوار کے موقع پر منعقدہ پروگرام دیکھنے گئے۔ اس وقت گاؤں کے ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے لوگ موجود تھے۔

یہ دیکھ کر ان نوجوانوں نے سوچا کہ ہمیں بھی اس طرح کا گنیش وتسو گاؤں میں منانا چاہیے۔

اس پر بحث ہوئی اور پرانا واقعہ یاد کر کے سب نے گاؤں کی مسجد میں گنیش کی تنصیب شروع کر دی۔

الٰہی پٹھان اس نئے گنپتی منڈل کے صدر تھے۔ اس وقت سبھاش تھوراٹ، اشوک شیجاوالے، وجے کاشد، ارجن کوکاٹے نامی مقامی افراد نے بھی پہل کی اور میلے میں تعاون کیا۔

سنہ 1961 میں گنپتی لگانے والوں کی دوسری نسل نے 1986 میں گنپتی کی تنصیب کی۔ پاٹل کہتے ہیں کہ آج کی تیسری نسل نے بھی اس وراثت کو محفوظ رکھا ہے۔

سنہ 1961 میں، باپوصاحب پاٹل، شیام راؤ تھورٹ، وسنت راؤ تھورٹ، نظام پٹھان، خدابدین جمعدار، رمضان ملانی دھونڈی پٹھان نے گنپتی کو نصب کیا۔

سنہ 1986 میں الہی پٹھان، اشوک پاٹل، سبھاش تھوراٹ، اشوک شیجاوالے، وجے کاشد، ارجن کوکاٹے نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔

جبکہ تیسری نسل میں گنیش تھوراٹ، ساگر شیجاوالے، راہول کوکاٹے، لکھن پٹھان، سدانند مہاجن اس وراثت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق اس سے معاشرے میں ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مدد مل رہی ہے

،تصویر کا ذریعہYogesh Jiwaje

،تصویر کا کیپشنمقامی لوگوں کے مطابق اس سے معاشرے میں ہم آہنگی برقرار رکھنے میں مدد مل رہی ہے

محرم اور گنپتی ایک ہی دن

اس بارے میں بات کرتے ہوئے لکھن پٹھان نے کہا کہ ’ہم اپنے گاؤں میں تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہمارے دادا نظام پٹھان اور میرے والد نے بھی گنپتی کی تقریبات میں شرکت کی۔‘

وہ کہتے ہیں ’اب میں خود شریک ہوں۔ ہم ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے تہوار ایک ساتھ مناتے ہیں۔ محرم اور گنپتی دو بار ایک ساتھ آئے۔ اس وقت پیر اور گنپتی کا مشترکہ جلوس نکالا گیا تھا۔‘

پٹھان اور اشوک پاٹل اچھے دوست ہیں۔

انہوں نے کہا ’کبھی کبھی بکر عید کا تہوار گنپتی کے زمانے میں آتا تھا۔ اس وقت مسلمان بھائی قربانی نہیں کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں شنکر کا مندر ہے۔ مسلمان بھائی اس دن بکرا ذبح نہیں کرتے۔ ایکادشی پر بھی گاؤں میں گوشت نہیں کھایا جاتا ہے۔‘

یہ روایت ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ سب کچھ بغیر کسی مجبوری کے پورے دل سے کیا جاتا ہے۔

پاٹل اور پٹھان نے گنیش تہوار کے دوران ایک واقعہ سنایا۔ ایک دفعہ مسلم فرقے کے کچھ لوگ گاؤں میں آئے۔ انھوں نے مسلمان بھائیوں سے کہا کہ گنیش وتسو نہ منائیں۔ اس تہوار کے بارے میں منفی باتیں کہی گئیں۔ لیکن ہمارے گاؤں کے تمام مسلمان بھائیوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم ہندو مسلم برسوں سے بھائی بھائی کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔

’انھوں نے کہا کہ ہمیں اس تہوار سے توانائی ملتی ہے اور احترام سے انھیں گاؤں سے باہر کا راستہ دکھایا۔‘

پہلے بیل گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ لکھن پٹھان نے بتایا کہ اسی لیے بھگوان گنیش کا جلوس بیل گاڑی سے گلال کے ساتھ نکلتا تھا اب اسی جوش و خروش کے ساتھ ٹریکٹر پر نکلتا ہے۔

وسرجن کے بعد پورے گاؤں کا کھانا ہوتا ہے۔ اس میلے میں گاؤں کے مرد اور عورتیں حصہ لیتے ہیں۔ ہر روز آرتی ایک خاندان کا اعزاز ہے۔ اشوک پاٹل نے کہا کہ آرتی دونوں برادریوں کے جوڑوں کو دی جاتی ہے۔

ایک مقامی رہائشی گنیش تھوراٹ نے کہا کہ ’ہماری پچھلی نسل کے شروع کردہ اس رواج کی وجہ سے گوٹکھنڈی گاؤں ایک ماڈل گاؤں کے طور پر ابھرا ہے۔ گاؤں کا نام بتاتے ہوئے مجھے فخر ہے۔ دونوں برادریوں کے لوگوں نے نوجوان نسل کو بڑا اعزاز بخشا ہے۔ اسے محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘

کرندواڑ کی دھیپن پور مسجد میں گنیش کی تنصیب

،تصویر کا ذریعہYogesh Jiwaje

کرندواڑ کی پانچ مساجد

کولہاپور ضلعے کے کرندواڑ میں پانچ مساجد میں گنیش کو نصب کیا گیا ہے۔

سنستھان کے گاؤں میں تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگ خوشی سے رہتے ہیں۔ گاؤں کی پانچ مساجد میں گنپتی نصب ہے یعنی کدےکھن بدینال صاحب مسجد، دھیپن پور مسجد، بیرگدار مسجد، شیلکے مسجد اور کارکنیا میں۔

کرندواڑ کی کہانی بھی گوٹکھنڈی سے ملتی جلتی ہے۔ 1982 میں گنیش وتسو کے دوران بارش ہوئی۔ اس وقت مسجد کے پاس رکھے گئے گنیش کو مسجد لے جایا گیا تاکہ بارش میں بھیگ نہ جائے اور پھر دوسرے سال سے گنیش کو گاؤں کی پانچ مسجدوں میں رکھنا شروع کر دیا گیا۔

مقامی صحافی جمیر پٹھان اس کے بارےکہتے ہیں کہ ’ہمیں فخر ہے کہ گاؤں کے بوڑھے لوگوں نے یہ رواج شروع کیا۔ یہ رواج آج بھی جاری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس سے معاشرے میں ہم آہنگی برقرار رہتی ہے۔

دونوں برادریاں بھائی چارے کے ساتھ ایک دوسرے کے تہوار مناتی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہYogesh Jiwaje

،تصویر کا کیپشندونوں برادریاں بھائی چارے کے ساتھ ایک دوسرے کے تہوار مناتی ہیں

پٹوردھن کی روایت

سنہ 2009 میں اٹھارہ کلومیٹر دور معراج کے مقام پر ہنگامہ ہوا۔ اس وقت اس کا اثر سانگلی اور کولہاپور میں کئی مقامات پر محسوس ہوا تھا۔

تاہم اس گاؤں میں دونوں برادریوں کے لوگ اکٹھے ہوئے اور امن کی اپیل کی اور کہا کہ وہ اپنے گاؤں کو بند نہیں رکھیں گے، تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے۔

رفیق دباسے ہر سال گنیش کی آمد کا بے تابی سے انتظار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم مسجد میں گنیش کی تنصیب کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر پر ایک پیارا مہمان آنے پر خوشی ہوتی ہے۔ اس موقع پر کرندواڑ کی دوستی مزید مضبوط ہو گئی۔ پورا ضلع ہمارے بھائی چارے کو سمجھتا ہے۔ ‘

کرندواڑ ریاست کے کچھ پرانے رسوم و رواج بھی اس تہوار سے جڑے ہوئے ہیں۔

کریم پہلوان 1900 کے قریب کی کہانی سناتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ سنستھان کے پٹوردھن راجے محرم کے لیے بھی مدد کرتے تھے۔

’ہمارے گاؤں کے بادشاہ، بالا صاحب پٹوردھن، بھگوان گنیش کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ اس گنپتی کے تہوار کے دن گاؤں کو میٹھا پرساد دیا جاتا تھا۔ راجہ پٹوردھن نے بھائی چارے کے یہ بیج بوئے ہیں۔ گاؤں پر اس کی مضبوط گرفت ہے، چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم ایک ہیں۔‘

کرندواڑ کو تین سال 2018، 2019 اور 2020 میں گنیش وتسو اور محرم ایک ساتھ منانے کا موقع ملا۔ جمیر پٹھان کے مطابق اس وقت گنیش کے مودک اور پیرا کا چونگیا دونوں پرساد ایک ساتھ تقسیم کیے جاتے تھے۔

سنہ 1982 سے شروع ہونے والی کرندواڑ کی روایت کو اب نئی نسل آگے بڑھا رہی ہے۔



Source link

Credits BBC Urdu