اتوار کی رات پاکستان کی قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟

29
اتوار کی رات پاکستان کی قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟


Pakistan

،تصویر کا ذریعہscreengrab

اتوار کے دن غیرمعمولی طور پر عدلیہ سے متعلق ایک آئینی ترمیم کے لے کوششیں جاری رہیں۔ متعدد بار قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے اوقات میں تبدیلی کی
جاتی رہی اور اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں سے مشاورت کا عمل بھی جاری
رہا۔ رات کو سپیکر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسے پیر یعنی آج دن ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا۔ حکومت
نے مشاورتی عمل کو عدلیہ میں اصلاحات کے لیے کی جانے والی قانون سازی میں تاخیر کی
وجہ قرار دیا۔ حکومتی ترجمان عطااللہ تارڑ نے صحافیوں
کو بتایا کہ یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال ہے، یہ کوئی آن آف کا بٹن تو ہے نہیں
کہ ادھر ترمیم آن کردی، ادھر ترمیم آف کردی۔

حکومت کو اس آئینی ترمیم
کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے
بعد حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت بظاہر آئینی ترمیم کے لیے اکثریت نہیں ہے۔

بلاول بھٹو

،تصویر کا ذریعہscreengrab

آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔

قومی اسمبلی میں ایسی ہی ایک ملاقات کے بعد چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے صحافیوں کو بتایا کہ آئینی ترمیم سے متعلق ’کافی کچھ اتفاق رائے
ہو گیا ہے۔ اب مزید بھی ضرورت ہے۔ جمہوریت کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ جب آپ قانون سازی
کرتے ہیں تو پھر کسی حد تک اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ مولانا فضل
الرحمن کی کوشش یہی ہے کہ یہ اٹھارویں ترمیم کی طرح متفقہ آئینی ترمیم ہو۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک جماعت نے چیف جسٹس
اور آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچا جس کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی جبکہ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔ بیرسٹر گوہر نے صحافیوں کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں اور وہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے نمبر پورے نہیں تھے اس لیے اجلاس ملتوی ہوا۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ قومی اسمبلی میں ہونے کی وجہ سے ’مجھے مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔‘

جے یو آئی کے ہی ایک رہنما حافظ حمداللہ نے اس آئینی ترمیم سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کس قسم کی ترامیم ہیں جو کابینہ، وزرا اور اتحادیوں اور اپوزیشن سے بھی چھپائی جاتی ہیں جبکہ پوری حکومت مولانا کی ہاں یا نہ پر کھڑی ہے۔‘

’میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں‘

JUI

،تصویر کا ذریعہJUI-F

اجلاس سے قبل سربراہ جے یو آئی نے پارلیمنٹ آمد کے موقع پر صحافی نے سوال کیا تھا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ اب تک آپ کو نہیں دیا گیا، کیا حکومت کو آپ پر اعتماد نہیں؟ جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ یہ سوال آپ حکومت سے پوچھیں۔ صحافی نے سوال کیا تھا کہ آپ کے جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ ’میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘

قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر درکار ووٹوں کے حصول کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کے لیے کوشاں رہیں۔ حکومتی وفد میں ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ شامل تھے۔ حکومتی وفد کے بعد پی ٹی آئی کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔

حکومتی جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کر رکھی ہیں تا کہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

’آئینی ترمیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے‘

وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور آئینی ترمیم ایک سنجیدہ معاملہ ہے تو جب تک وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل نہیں ہو جاتی ہے تو اس پر آگے بڑھنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی ہے۔

آئینی ترمیم کے حوالے سے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اور جب آئین پاکستان میں ترمیم کی جاتی ہے تو بہت سنجیدگی سے ایک ایک شق اور لفظ پر غور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس پر ’باقاعدہ بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے اور قانونی ماہرین سے ایک ایک نکتے پر رائے طلب کی جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس میں تمام جماعتوں کے آئینی ماہرین بھی موجود ہیں تاکہ جو بھی آئینی ترامیم لائی جائیں اس کے مسودے میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے بھی مشاورت ہو رہی ہے اور قانونی ماہرین کی رائے اس لیے اہم ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ ہے جس میں ترمیم ہونے جا رہی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔

govt

،تصویر کا ذریعہPID

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ تاخیر کی وجہ مشاورت اور مشاورت کا دائرہ کار وسیع کرنا ہے اور پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو اس کا حصہ بنانا ہے، اگر آج ایوان میں آج اسے پیش کیا جاتا ہے تو اسے شق در شق پڑھا جائے گا اور اسی طرح ووٹنگ ہو گی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلسل التوا کے سوال پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ کوئی بچوں کا کھیل تو ہے نہیں، اس میں تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ جب آئین میں ترمیم ہوتی ہے تو ایک ایک نکتے پر، ایک ایک لائن پر بات چیت ہوتی ہے، تو اچھا ہے کہ مشاورت کے نتیجے میں اتفاق رائے کی صورتحال پیدا ہو جائے۔

اجلاس بلا کر مسلسل ملتوی کرنے کے حوالے سے ایک اور سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کوئی آن آف کا بٹن تو ہے نہیں کہ ادھر ترمیم آن کردی، ادھر ترمیم آف کردی۔ یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال ہے، ہم پرامید ہیں تو جمہوری معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

اتوار کو ٓئینی ترمیم سے متعلق مشاورت کے لیے قومی اسمبلی کی پارلیمانی امور سے متعلق خصوصی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا جس میں جمعیت علمائے اسلام، جے یو آئی، کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم پر فیصلے سے قبل مزید مشاورت کی تجویز دی۔ چارٹر آف پارلیمنٹ کے لیے تشکیل کردہ حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں پر مشتمل قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین خورشید شاہ کی زیرصدارت ہوا۔ کمیٹی کا اجلاس آج دوبارہ ہوگا۔

وزیر داخلہ محسن نقوی بھی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کمیٹی کو مجوزہ آئینی ترمیم پر بریفنگ دی۔ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن، وزیر قانون اعظم تارڑ، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان بھی کمیٹی اجلاس میں شریک رہے۔

خورشید شاہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ابھی کچھ طے نہیں ہوا، جب تک کابینہ منظوری نہیں دے گی مسودہ نہیں دے سکتے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک کابینہ میں مسودہ نہیں گیا، کابینہ کی منظوری کے بعد ہی مسودہ آئے گا۔‘



Source link

Credits BBC Urdu