- مصنف, شمائلہ خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
’مینٹل ہیلتھ پر کبھی بات ہی نہیں ہوتی ہے، خاص طور پر مردوں میں۔‘
یہ کہنا ہے ڈرامہ سیریل ’جفا‘ میں حسن کا کردار نبھانے والےاداکار محب مرزا کا۔ اس ڈرامہ میں وہ ایک ایسے شخص کی عکاسی کررہے ہیں جو اکثر اپنے غصہ پر قابو نہیں رکھ پاتا اور پُرتشدد ہوجاتا ہے۔
اداکارہ ماورا حُسین نے ڈرامہ سیریل ’جفا‘ میں حسن کی بیوی ڈاکٹر زارا کا کردار نبھایا ہے جبکہ دیگر کرداروں میں سحر خان، عثمان مختار، نادیہ افگن، ضرار خان، نعمان مسعود، فرح سعدیہ، انعم گوہر اور شامل خان وغیرہ شامل ہیں۔ ڈرامہ سیریل ’جفا‘ کی کہانی سمیرا فضل نے لکھی ہے جبکہ دانش نواز نے اس کی ہدایت کاری کی ہے۔
’جفا‘ میں حسن جن رویوں کی عکاسی کررہے ہیں اُنھیں عرف عام میں ’ریڈ فلیگز‘ کے طور پر جانچا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن اور ڈاکٹر زارا کی کہانی مداحوں میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اداکار محب مرزا نے بتایا کہ ڈرامے میں حسن کے بچپن کے ٹراما کو بھی دِکھایا جائے گا۔
’شاید یہ بات پاکستانی مردوں کو آسانی سے سمجھ میں آسکے کہ اگر ایسا رویہ ہے تو یہ کوئی مردانگی نہیں ہے یا اس پر آپ کو ہیرو کا ٹائٹل نہیں ملنا چاہیے۔ آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ کے بچپن میں ہونے والے واقعات سے یہ جنم لے رہا تھا۔‘
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ڈرامہ آگاہی کے لیے ہے اور کہا کہ ’لوگ اس میں ایک مختلف زاویہ دیکھیں گے اور شاید 100 میں سے کوئی ایک شخص سمجھ پائے کہ اُس کا ٹریگر پوائنٹ کیا ہے اور اُسے مدد کی ضرورت ہے۔‘
اپنے کردار پر ملنے والی رائے پر ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک کا رد عمل یہی ہے کہ اس بندے کے ساتھ مسئلہ ہے اور سمجھ بوجھ یا آگاہی رکھنے والے لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ اب اس کو علاج چاہیے۔ میرے گھر میں بھی یہی بات ہورہی ہے جبکہ میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ہوا ہے۔‘
ڈرامہ سیریل ’جفا‘ میں کئی بار حسن کو ڈاکٹر زارا پر چیختے چلاتے دکھایا گیا اور اس انداز سے مارتے بھی دکھایا گیا کہ دیکھنے والے کو لگے کہ غصےمیں دھکا دینے سے چوٹ لگی۔
ایک منظر میں یہی بحث بھی ہوتی ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے محب نے بتایا کہ انھوں نے ماوارا کو الگ سے میسیج کرکے اُن کے کام کی تعریف کی۔
سکرین پر عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کے سوال پر محب کا ماننا تھا کہ اگر کسی چینل کی پالیسی یا کسی اداکار کو اعتراض ہے تو یہ چیزیں پہلے طے ہونی چاہئیں۔
’سکرپٹ میں اپنی مرضی کہاں سے لاسکتا ہوں اور اگر لا رہا ہوں تو بہت ہی غیر مناسب بات ہے۔‘
رشتوں میں ’ریڈ فلیگز‘ کی بات ہوئی تو ہم نے ان سے سوال کیا کہ آیا مرد عورتوں کے رویوں میں یہ باتیں نوٹ کرتے ہیں اور ان پر بات کرتے ہیں؟
اس پر محب کا جواب تھا کہ ’مرد آپس میں بات نہیں کرتے۔ 99 فیصد تو عزت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ پتا نہیں ہماری کنڈیشنگ سے جڑا ہوا ہے یا انا سے جڑا ہوا ہے لیکن بات چیت کرتے ہوئے شرمندگی کا ایک عجیب پہاڑ ہے کہ یار یہ بات نہیں کرسکتے۔‘
’اتنی کڑواہٹ اور زہر نہیں پالنا چاہیے‘
محب مرزا کا کہنا ہے کہ اگر وہ حقیقی زندگی میں ڈاکٹر زارا کے دوست ہوتے تو کہتے کہ ’محتاط رہیں اور ختم کریں۔‘
واضح رہے کہ’جفا‘ میں اداکارہ ماوارا کا کردار ڈاکٹر زارا ایک ہمدرد بیوی کا ہے جو شوہر میں ’ریڈ فلیگز‘ دیکھنے کے باوجود اُسےسمجھنے اور خود اس کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
میں نے پوچھا کہ کیا وہ ساتھ رہنے کا مشورہ دیتے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’نہیں کچھ حد تک کریں۔ لیکن یہ کوئی زمہ داری نہیں ہے کسی کی۔‘
محب نے اپنی ایک دوست کا جملہ دہرایا کہ ’بھیا نے کہا ہے کہ بھئی شادی ہوگئی ہے تو بس یہی ہے۔ اب اس کے باہر کچھ نہیں ہے۔ یعنی اس کو نبھانا ہی نبھانا ہے۔ ضرور نبھائیں لیکن اتنا پریشر کیوں ہے؟‘
انھوں نے اپنی بات کی وضاحت میں کہا کہ ’ہم طلاق کو پروموٹ نہیں کررہے ہیں۔ ہم یہ پروموٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر صورتحال زہریلی ہوگئی ہے تو اس سے صرف بیماری ہوگی۔ مستقل دباؤ میں ہوں گے تو سائنسی طور پر ثابت ہے کہ آپ اپنے جسم کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی نہ کوئی بیماری لگا لیں گے تو اتنی کڑواہٹ اور زہر کسی کو بھی نہیں پالنا چاہیے۔‘
محب مرزا نے’جفا‘ کی کہانی کی تعریف کی اور کہا کہ دو کرداروں کے واضح فرق کی وجہ سے ڈرامہ لوگوں کی توجہ حاصل کررہا ہے۔ ’اگر ڈاکٹر نمیر جیسا کردار نہیں ہوتا تو حسن کے کردار کا اثر نہ ہوتا۔‘
واضح رہے کہ اداکار عثمان مختار، ڈاکٹر نمیرکا کردار نبھا رہے ہیں جو ڈرامے میں ایک سُلجھا ہوا سمجھدار شخص دکھایا گیا ہے۔ اُن کے خیال میں ’جفا‘ کی سب سے بڑی طاقت مردوں کے حساس اور مضبوط کردار ہیں۔
’اتنا اکھٹا ایک ساتھ مردوں کو بہتر اور حساس انداز سے پرفارم کرتے دیکھا ہے ورنہ عموما باپ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ واپس نہیں آ سکتیں گھر۔۔۔ یا وہ سٹینڈ نہیں لیتے بیٹیوں کے لیے۔‘
محب نے بتایا کہ ’جفا‘ کی فلمنگ کے دوران سیٹ پر تفریح بھی ہوتی تھی۔ ہنستے ہوئے بولے کہ ’دانش نواز جس سیٹ پر ہوں وہاں تفریح نہ ہو ایسا تو نہیں ہوسکتا۔‘
لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس تفریح میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ اکثر اُسی کمرے میں بیٹھا کرتے تھے جہاں ڈرامے میں ڈاکٹر زارا کو حسن نے بند کیا تھا اور صرف افطار یا کھانے پر شامل ہوجاتے تھے۔
’میں زیادہ سے زیادہ کوشش کررہا تھا کہ میں اپنے زون میں رہوں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے ٹارچر کرنا ہے اپنے آپ کو۔ مجھے اپنی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہے۔ واپس زون میں آنا بہت زیادہ کام ہے۔‘
محب مرزا ڈراموں میں اکثر منفی کرداروں میں نظر آتے ہیں۔ اسی لیےمیں نے جاننا چاہا کہ کیمرہ بند ہونے کے بعد وہ خود کو اِن منفی کرداروں سے الگ کیسے کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میوزک، ہیڈ فون، کوئی کہانی، کسی دوست کو فون کرلینا، بیگم کو فون یا اماں کو فون اورگھر کی باتیں، نارملائز ہوتے ہوتے تھوڑا بہت سانس کی مشق اور میڈیٹیشن وغیرہ۔‘
ناظرین میں ڈرامے اور ان کے کردار کی پسندیدگی پر محب مرزا نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ تھیٹر ہوتا تو باقاعدہ سٹینڈنگ اویشن اور تالیاں مل رہی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ جفا میں حسن کا کردار میرے کریئر میں ایک سنگِ میل ہے۔‘
پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں سانولی یا گندمی رنگت والے مرد اداکاروں کے چیلنجز پر بات ہوئی تو انھوں نے رنگت کی بنیاد پرانڈسٹری میں کام کم ملنے کے تاثر کو رد کیا اور کہا کہ ’تکنیکی پہلو ہوگا لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ اب اتنا مدعا رہا ہےاور ہونا بھی نہیں چاہئیے۔‘
’یہاں تو ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اچھے خاصے گورے شخص کو بُلا کر کالا کرکے یاسانولا کرکے رول کروایا گیا ہے۔ مواقع تو آپ خود پیدا کرتے ہیں، اپنے خواب سے، اپنی ثابت قدمی سے۔‘
Credits BBC Urdu